Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’بغیر اجازت کوریج‘، طالبان نے صحافی متین خان کو گرفتار کر لیا

متین خان کے کیمرہ مین کو بھی گرفتار کیا گیا ہے۔ (فوٹو: چمن پریس کلب)
افغان طالبان نے پاکستان کے خیبر نیوز کے صحافی متین خان کو قندھار میں گرفتار کر لیا ہے۔
اردو نیوز کے نامہ نگار زین الدین احمد کے مطابق متین خان کے اہلخانہ نے بتایا ہے کہ ’وہ گذشتہ روز کوریج کے لیے چمن سے قندھار گئے تھے جہاں انہیں ان کے کیمرہ مین کے ساتھ گرفتار کر لیا گیا۔‘
صحافی متین خان کے اہلخانہ کا کہنا ہے کہ ’دونوں صحافیوں کو کنٹینر میں بند کیا گیا ہے اور صرف ایک بار واٹس ایپ پر رابطہ ہوا ہے۔
متین خان کی گرفتاری کے حوالے سے افغان طالبان کا کہنا ہے کہ ’پاکستانی صحافی کو قندھارمیں بغیر اجازت کے کوریج پر حراست میں لیا۔‘
’صحافی کو کیمرا مین کے ساتھ گذشتہ روز گرفتار کیا، ان سے تفتیش جاری ہے۔‘
چمن پریس کلب نے دونوں پاکستانی صحافیوں کی گرفتاری کی مذمت کرتے ہوئے حکومت سے نوٹس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔
چمن پریس کلب کے عہدیدار حبیب اللہ اچکزئی نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ متین خان اپنے کیمرہ مین محمد علی اور دیگر صحافیوں کے ساتھ چمن سے افغانستان کے صوبے قندھار کوریج کے لیے گئے تھے جہاں انہیں بدھ کو عصر کے وقت طالبان نے گرفتار کر لیا۔
ہم کوریج کر کے واپس آ گئے لیکن انہیں دوران کوریج طالبان نے گرفتار کر لیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’چمن کے صحافی صرف شناختی کارڈ دکھا کر قندھار تک جا سکتے ہیں اور قندھار کے صحافی بھی شناختی کارڈ دکھا کر چمن تک آ سکتے ہیں۔

افغان طالبان کا کہنا ہے کہ ’پاکستانی صحافی کو قندھارمیں بغیر اجازت کے کوریج پر حراست میں لیا۔‘ (فوٹو: چمن پریس کلب)

حبیب اللہ اچکزئی نے اردو نیوز کو مزید بتایا کہ ’ان کی علاقائی طالبان رہنماؤں سے بات چیت ہوئی تھی اور انہوں نے کہا تھا کہ متین اور ان کے کیمرہ مین کو آج صبح چھوڑدیا جائے گا تاہم اب کہا جا رہا ہے کہ انہیں مزید تحقیقات کے بعد چھوڑا جائے گا۔‘
واضح رہے کہ چمن سے کئی صحافی بغیر اجازت کے قندھار میں داخل ہوگئے تھے جس پر مقامی صحافیوں اور افغان شہریوں نے سوشل میڈیا پر طالبان سے شکایت کی تھی۔
دوسری جانب افغانستان کے نیوز چینل طلوع نیوز کے صحافی زیار خان یاد نے دعویٰ کیا ہے کہ دارالحکومت کابل میں انہیں طالبان نے تشدد کا نشانہ بنایا ہے اور ان سے ان کا سامان بھی چھین لیا۔
اپنے ایک ٹوئٹر پیغام میں زیار کا کہنا تھا کہ ’مجھے رپورٹنگ کے دوران کابل کے نئے شہر میں طالبان کی جانب سے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ میرے کیمرے اور ذاتی موبائل فون بھی چھین لیا گیا ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ کچھ لوگوں کی جانب سے ان کی موت کی خبر بھی پھیلائی گئی جو کہ بلکل غلط ہے۔
طالبان کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے نہیں پتہ انہوں نے ایسا برتاؤ اور اچانک حملہ کیوں کیا۔‘

شیئر: