نایاب تصاویر جو سعودی عرب کے تاریخی واقعات پر روشنی ڈالتی ہیں
نایاب تصاویر جو سعودی عرب کے تاریخی واقعات پر روشنی ڈالتی ہیں
اتوار 29 اگست 2021 15:04
شاہ فیصل مرحوم اس وقت کے گورنر ریاض شہزادہ سلمان کے ساتھ پرانے ریاض گورنریٹ سے روانہ ہو رہے ہیں۔ (فوٹو: عمر مرشد)
تاریخی تصاویر اکٹھی کرنے کے شوقین سعودی شہری عمر مرشد نے مملکت کی محفوظ شدہ تصاویر کا ایک مجموعہ حاصل کیا ہے جو کہ قدیم ادوار اور سعودی عرب کے تاریخی واقعات پر روشنی ڈالتا ہے۔
عرب نیوز کے مطابق ڈیجیٹل نمائشوں کے ماہر عمر مرشد نے تصاویر کی یہ نایاب کلیکشن خصوصی نوعیت کی ایسی نیلامیوں کے ذریعے حاصل کی جن میں ان غیر ملکی فوٹوگرافرز کی جانب سے لی گئی تصاویر شامل تھیں جو دہائیوں قبل سعودی عرب میں کام کرتے تھے۔
عمر مرشد نے ایک امریکی صحافی نجیب نجار کی ذاتی لائبریری سے 40 سال پرانی تصاویر حاصل کی ہیں جو کہ 1974 میں سعودی عرب اور خاص طور پر دارالحکومت ریاض کا اکثر دورہ کیا کرتے تھے۔
نجیب کی محفوظ شدہ تصاویر سعودی تاریخ کی عکاسی کرتی ہیں اور انہیں پہلے پہل اخبارات کے ذریعے بھی شائع کیا گیا ہے۔
عمر مرشد نے عرب نیوز کو بتایا ہےکہ پہلی تصویر جو انہوں نے حاصل کی اس میں سعودی فرمانروا شاہ فیصل بن عبدالعزیز آل سعود کو دکھایا گیا ہے کہ وہ ریاض کی قدیم عمارت سے باہر آ رہے ہیں جبکہ ان کے پیچھے اس وقت کے ریاض کے گورنر اور سعودی عرب کے موجودہ حکمران شاہ سلمان بن عبدالعزیز نظر آ رہے ہیں۔
دوسری تصویر قدیم گورنریٹ کی عمارت کی ہے جس کے سامنے کے حصے کو مقامی تعمیراتی نقطۂ نظر سے دکھایا گیا ہے جبکہ گھڑ سوار محافظ داخلی دروازے پر تعینات ہیں۔
تیسری تصویر میں دکھایا گیا ہے کہ گھڑ سوار دستہ اور محافظ ریاض کا دورہ کرنے والے سربراہ مملکت کے استقبال کی تیاری میں الصفات اسکوائر اور العدل اسکوائر کے قریب موجود ہیں۔
چوتھی تصویر میں اس وقت کے نیشنل گارڈ کے سربراہ شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز آل سعود کو نیشنل گارڈ کے متعدد ملازمین کو خوش آمدید کہتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔
پانچویں تصویر میں شاہ فیصل بن عبدالعزیز کے ساتھ شہزادوں اور شہریوں کا گروپ الماز سٹیڈیم میں تقریبات کے دوران نجد کا روایتی رقص کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔
عمر مرشد کا کہنا ہے کہ کیمرہ انسانی ایجادات میں سب سے اہم ہےجس کے باعث واقعات اور معلومات کی دستاویزات اور ترسیل میں انقلابی تبدیلیاں آئی ہیں۔
اس موقع پر عمر مرشد نےعرب نیوز کو بتایا ہے کہ اب ہم ٹیکنالوجی کی نوعیت اور وقت کی رفتار کے بارے میں بات کر رہے ہیں جو سلائیڈ فلموں کے ذریعے فوٹو گرافی میں اہم ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ہم منتخب کردہمتعدد تصاویر کی تفصیل پیش کرتے اور یہ بتاتے ہوئے نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ ہم انہیں ڈیجیٹل فوٹوز میں کیسے تبدیل کریں گے۔
انہوں نے سلائیڈز کے استعمال کے آغاز سے متعلق بھی بتایا جو ایسٹ مین کوڈک کمپنی نے 1935 میں متعارف کرائی تھیں۔
یہ 25 ملی میٹر کی کوڈکروم فلم کی مثبت تصاویر پر مشتمل ہوتی تھیں اور5 سینٹی میٹر کی چوکور شکل میں محفوظ رکھنے کے لئے مستطیل گتے یا پلاسٹک کے ساتھ جڑی ہوتی تھیں، یہ سلائیڈ فوٹو کی سب سے وسیع شکل ہے۔
انہوں نے بتایا کہ تاریخی نقطۂ نظر سے انہیں مادی ثبوت تصور کیا جاتا ہے جو انسانی تہذیب کو مجسم بناتی ہیں اور اسے ماضی کے ساتھ جوڑتی ہیں۔
قدیم واقعات کو تصویر کی شکل میں بیان کرتی ہیں، تاریخ کے امتیازی نشانات اور عمارتوں کی تعمیراتی بناوٹ کو محفوظ کرتی ہیں جو وقت کے ساتھ تبدیل ہو سکتے ہیں لہٰذا یہ تصاویر ان کی بہترین گواہ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہی وجہ ہے کہ مفید مواد دکھانے والی سلائیڈز کو اس شعبے میں مہارت رکھنے والی لائبریریوں اور تحقیقی مراکز اور عجائب گھروں میں انمول خزانے کے طور پر رکھا گیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ناظرین سلائیڈز میں موجود تصاویر کو کئی طریقوں سے دیکھ سکتے ہیں۔ انہیں سپاٹ لائٹ کے نیچے رکھ کر یا سکرین کے ذریعے اور پروجیکٹر کا استعمال کرتے ہوئے بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ طریقہ کار 1960 اور1970 کی دہائی میں رائج تھا۔
عمر مرشد نے مزید کہا کہ اس دور میں اس طرح کی سلائیڈز کے ذرائع بہت زیادہ تھے لیکن کئی وجوہ کی بنا پر اب ان کا حصول آسان نہیں رہا۔
سب سے اہم وجہ اس ٹیکنالوجی کا غائب ہو جانا اور اس کے استعمال کا نایاب ہو جانا ہے۔
ناقص طریقے سے محفوظ کرنے کی وجہ سے ہونے والے نقصان کے علاوہ جو چیز ان تصاویر کو متاثر کر سکتی ہے وہ ان سلائیڈز کی چھانٹی کرنے اور لوگوں، مقامات اور دور کو شناخت کرنے کے عمل میں پیش آنے والی دشواری ہے۔
ان مخصوص سلائیڈز کو اس کام میں مہارت رکھنے والوں کے ذریعے لائبریریوں، تحقیقاتی مراکز اور عجائب گھروں میں انمول خزانے کے طور پر رکھا گیا ہے۔
واٹس ایپ پر سعودی عرب کی خبروں کے لیے ”اردو نیوز“ گروپ جوائن کریں