Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بائیڈن اور اشرف غنی کے درمیان آخری فون کال میں کیا بات ہوئی؟

طالبان کے ملک کا کنٹرول سنبھالنے سے پہلے امریکی صدر جو بائیڈن اور ان کے افغان ہم منصب اشرف غنی کے درمیان آخری کال میں دونوں رہنماؤں نے فوجی امداد، سیاسی حکمت عملی اور پیغام رسانی کی حکمت عملی پر تبادلہ خیال کیا۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کو ملنے والی ایک ٹیلی فونک گفتگو کی نقل سے واضح ہوتا ہے کہ نہ تو جو بائیڈن اور نہ ہی اشرف غنی فوری طور پر کسی خطرے سے آگاہ یا اس کے لیے تیار نظر آئے۔
جو بائیڈن اور اشرف غنی نے 23 جولائی کو تقریباً 14 منٹ بات کی جبکہ 15 اگست کو اشرف غنی صدارتی محل چھوڑ کر نکل گئے جس کے بعد طالبان کابل میں داخل ہو گئے تھے۔
طالبان کے ملک کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد سے ہزاروں مایوس افغان شہری ملک چھوڑ چکے ہیں۔
امریکی انخلا کے دوران 13 امریکی فوجی اور متعدد افغان شہری کابل کے ایئرپورٹ پر ایک خودکش بم دھماکے میں مارے گئے تھے۔
فون کال میں جو بائیڈن نے اس صورت میں امداد کی پیشکش کی کہ ’اگر اشرف غنی عوامی سطح پر یہ کہیں کہ ان کے پاس افغانستان میں بگڑتی ہوئی صورتحال کو کنٹرول کرنے کا منصوبہ ہے۔‘

طالبان کے ملک کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد سے ہزاروں مایوس افغان شہری ملک چھوڑ چکے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

امریکی صدر نے کہا کہ ’اگر ہمیں منصوبے کا علم ہو تو ہم فضائی مدد فراہم کرتے رہیں گے۔‘
خیال رہے کہ اس فون کال سے کچھ دن قبل امریکہ نے افغان سکیورٹی فورسز کی مدد کے لیے فضائی حملے کیے تھے جس پر طالبان نے کہا تھا کہ یہ اقدام دوحہ امن معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔
جو بائیڈن نے اشرف غنی کو مشورہ دیا کہ ’وہ پیش قدمی کرنے والی فوجی حکمت عملی کے لیے طاقتور افغانوں کو مجتمع کرنے کی کوشش کریں اور پھر اس کا انچارج ایک ’جنگجو‘ بنائیں۔ ان کا اشارہ وزیر دفاع بسم اللہ خان محمدی کی جانب تھا۔‘
جو بائیڈن نے افغان مسلح افواج کی تعریف کی جنہیں امریکی حکومت نے تربیت اور مالی اعانت دی۔
انہوں نے افغان صدر سے کہا کہ ’آپ کے پاس بہترین فوج ہے۔ آپ کے پاس ستر اسی ہزار کے مقابلے کے لیے تین لاکھ افراد پر مشتمل اچھی مسلح فوج ہے اور وہ بہتر انداز میں لڑنے کے قابل ہیں۔‘
لیکن اس کے چند ہی دن بعد افغان فوج نے ملک کے صوبائی دارالحکومتوں میں طالبان کے خلاف انتہائی محدود مزاحمت کے بعد اپنا بوریا بستر لپیٹنا شروع کر دیا تھا۔
جو بائیڈن نے فون کال کے دوران زیادہ تر اس نکتے پر توجہ مرکوز رکھی جسے انہوں نے ’افغان حکومت کی پرسیپشن پرابلم‘ قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ ’مجھے آپ کو دنیا بھر اور افغانستان کے کچھ حصوں میں موجود اس تاثر سے آگاہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ طالبان کے خلاف جنگ کے حوالے سے حالات ٹھیک نہیں ہیں۔‘

افغان فوج نے طالبان کے خلاف انتہائی محدود مزاحمت کے بعد اپنا بوریا بستر لپیٹنا شروع کر دیا تھا۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

بائیڈن نے مزید کہا کہ ’چاہے یہ تاثر حقیقت ہو یا نہیں، اس وقت دنیا کے سامنے ایک مختلف تصویر پیش کرنے کی ضرورت ہے۔‘
جو بائیڈن نے اشرف غنی سے کہا کہ اگر افغانستان کی ممتاز سیاسی شخصیات ایک نئی عسکری حکمت عملی کی حمایت کرتے ہوئے ایک ساتھ پریس کانفرنس کریں گے تو ’اس سے یہ تاثر بدل جائے گا اور میرے خیال میں اس سے بہت زیادہ تبدیلی آئے گی۔‘
روئٹرز کے مطابق دونوں رہنماؤں کے درمیان ٹیلی فونک گفتگو کے دوران امریکی صدر کے الفاظ سے اشارہ ملتا ہے کہ وہ بڑے پیمانے پر بغاوت اور اس ٹیلی فونک گفتگو کے 23 دن بعد افغان حکومت کے انہدام کی توقع نہیں کر رہے تھے۔
امریکی صدر نے کہا کہ ’ہم سفارتی، سیاسی اور معاشی طور پر سخت لڑائی جاری رکھیں گے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ آپ کی حکومت نہ صرف محفوظ رہے بلکہ برقرار رہے اور آگے بڑھتی رہے۔‘
وائٹ ہاؤس نے منگل کو اس کال پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔
اس فون کال کے بعد وائٹ ہاؤس نے ایک بیان جاری کیا جس میں بتایا گیا کہ جو بائیڈن نے افغان سیکورٹی فورسز کی مدد کے لیے کانگریس سے فنڈز مانگنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔
اشرف غنی نے جو بائیڈن سے کہا کہ ان کا خیال ہے کہ اگر وہ ’فوجی حل میں توازن پیدا کر سکتے ہیں‘ تو امن ہو سکتا ہے۔ لیکن اس نے مزید کہا کہ ’ہمیں تیز رفتاری سے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔‘
افغان صدر نے کہا کہ ’ہم بڑے پیمانے پر حملے کا سامنا کر رہے ہیں جو طالبان اور پاکستان کی مکمل منصوبہ بندی اور لاجسٹک سپورٹ پر مشتمل ہے اور کم از کم 10 سے 15 ہزار بین الاقوامی دہشت گردوں کو پاکستان سے افغانستان میں داخل کر دیا گیا ہے۔‘
خیال رہے کہ ماضی قریب میں افغان حکومت کے عہدیدار اور امریکی ماہرین مسلسل طالبان کی پاکستانی حمایت کی طرف اشارہ کرتے رہے ہیں۔
واشنگٹن میں پاکستانی سفارت خانہ ان الزامات کی تردید کرتا ہے۔ سفارت خانے کے ترجمان نے روئٹرز کو بتایا کہ ’طالبان جنگجوؤں کا پاکستان سرحد عبور کرنے کا افسانہ ایک بہانہ ہے اور یہ مسٹر اشرف غنی کی قیادت اور ان کی ناکام حکمرانی کو جواز بخشنے کے لیے گھڑا گیا ہے۔‘
روئٹرز نے اس ٹیلی فونک کال کے متعلق استفسار کے لیے اشرف غنی کے سٹاف تک رسائی کی کوشش کی لیکن کوئی کامیابی نہیں ہوئی۔

ماضی میں بھی افغان حکومت کے عہدیدار اور امریکی ماہرین مسلسل طالبان کی پاکستانی حمایت کی طرف اشارہ کرتے رہے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

اشرف غنی جن کے بارے میں خیال یہ ہے کہ وہ متحدہ عرب امارات میں موجود ہیں۔ ان کا آخری بیان 18 اگست کو آیا تھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ وہ خونریزی روکنے کے لیے افغانستان سے فرار ہوئے۔
واضح رہے کہ جب یہ ٹیلی فونک بات چیت ہوئی تو اس وقت امریکہ افغانستان سے اپنے طے شدہ انخلا میں مصروف تھا جسے جو بائیڈن نے اپنے پیشرو ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے طے شدہ مئی کی تاریخ سے مؤخر کر کے 31 اگست مقرر کیا تھا اور منگل کو انخلا کا یہ عمل مکمل ہو چکا ہے۔

شیئر: