امریکہ کی جانب سے افغان عوام کے لیے امداد کا امکان
امریکہ سنہ 2001 میں طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد سے افغانستان کو امداد فراہم کرنے والا ایک بڑا ملک رہا ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)
امریکی کانگریس ممکنہ طور پر اقوام متحدہ اور افغانستان کے لیے انسانی امداد فراہم کرنے والی دیگر ایجنسیوں کو مالی اعانت فراہم کرے گی لیکن عملی طور پر اس بات کا کوئی امکان نہیں ہے کہ وہ طالبان کی قیادت میں نئی افغان حکومت کو براہ راست مالی مدد فراہم کرے۔
برطانوی خبر رساں ایجنسی روئٹرز کا کے مطابق امریکہ سنہ 2001 میں طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد سے افغانستان کو امداد فراہم کرنے والا ایک بڑا ملک رہا ہے۔ امریکہ نے افغانستان کی سکیورٹی ، گورننس، ترقی اور انسانی فلاح و بہبود کے لیے تقریباً 130 ارب ڈالر مختص کیے تھے ۔
امریکی کانگرس کے دونوں ایوانوں کو کنٹرول کرنے والے ارکان کا کہنا ہے کہ اندرونی طور پر بے گھر ہونے والے افغانوں اور پناہ گزینوں کے لیے انسانی امداد فراہم کرنا تقریباً یقینی ہے لیکن حکومت کو نہیں، کم سےکم اس وقت نہیں۔
سینیٹ کے ایک سینیئر ڈیموکریٹک معاون کا کہنا ہے کہ ’ کانگریس ارکان کو نگرانی کے نظام کی عدم موجودگی اور امریکہ کو ناپسند کرنے والی طالبان حکومت کی حمایت کے لیے کچھ کرنے پر قائل کرنا مشکل ہوگا۔‘
سینیٹ میں ایک سینیئر ری پبلکن رکن کا کہنا ہے کہ ’ری پبلکنز طالبان کو پیسے دینے کی بالکل حمایت نہیں کریں گے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’وہ اس وقت تک کوئی رقم فراہم نہیں کرنا چاہتے جب تک امریکہ کے ساتھ کام کرنے والے امریکی اور افغان افغانستان سے نکل نہیں جاتے۔‘
کانگرس ارکان کا یہ بھی کہنا ہےکہ ’اس بات کا بھی احساس پایا جاتا ہے کہ عالمی ادارہ خوراک (ورلڈ فوڈ پروگرام) اور اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) جیسے اداروں کو فنڈز درکار ہوں گے۔‘
ری پبلکنز کا کہنا ہے کہ ’ارکان کانگرس یہ چاہیں گے کہ اس حوالے سے سخت شرائط عائد کی جائیں کہ یہ فنڈز خرچ کیسے کیے جائیں گے۔‘
ڈیموکریٹک رکن کے مطابق یکم اکتوبر سے شروع ہونے والے مالی سال 2022 کے لیےکانگریس نے 136.45 ملین ڈالر اقتصادی امدادی فنڈ کے لیے مختص کیے، جس میں افغان حکومت کی تنخواہیں بھی شامل تھیں اور افغانستان میں انسانی امداد کے لیے 52.03 ملین ڈالر رکھے گئے تھے۔