’جب کیمپ ون پر بھی موسم خراب ہوا تو اندیشہ تھا کہ ہم چوٹی سر کرنے کے لیے نہیں جا سکیں گے، تو دل بہت افسردہ ہوا کیوںکہ جب ہم گھر سے نکل رہے تھے تو لوگ طعنے دے رہے تھے کہ یہ لڑکی ہو کر پہاڑ سر کرنے جا رہی ہے۔ لوگ میرے ابو کو کہہ رہے تھے کہ بیٹی کو بے حیائی کی طرف لے جا رہے ہو۔‘
یہ کہنا ہے گلگت بلتستان کے علاقے شگر کے گاؤں حیدرآباد سے تعلق رکھنے والی کمسن کوہ پیما آمنہ شگری کا، جنہوں نے اپنے والد اور بھائی کے ساتھ مل کر حال ہی میں 6400 میٹر بلند چوٹی خسر گنگ کو سر کیا ہے۔ وہ ثمینہ بیگ کے بعد گلگت سے تعلق رکھنے والی دوسری خاتون کوہ پیما ہیں۔
آمنہ شگری کے پاس اپنا موبائل فون بھی نہیں ہے، لیکن اپنے بھائی علی شگری کے فون کے ذریعے ’اردو نیوز‘ کو دیے گئے انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ ’مجھے بچپن ہی سے پہاڑوں پر جانے کا شوق رہا ہے۔ جب ابو بھیڑ بکریوں کو پہاڑوں پر لے کر جاتے تو میں ضد کرکے ان کے ساتھ جاتی، کیونکہ اس سے میرا ٹیمپریچر برابر ہوتا تھا۔‘
مزید پڑھیں
-
کوہ پیمائی میں چوٹی سر کرنے کی تصدیق کیسے کی جاتی ہے؟Node ID: 540591