Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آخری مرتبہ والد کو کے ٹو ’بوٹل نیک‘ سے اوپر چڑھتے ہوئے دیکھا: ساجد سدپارہ

دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو سر کرنے کی کوشش کرنے والے پاکستانی کوہ پیما محمد علی سدپارہ سمیت غیر ملکی کوہ پیماؤں کا تاحال کوئی سراغ نہیں لگ سکا۔
پیر کو الپائن کلب کی طرف سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق پہاڑوں پر بادل چھائے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے کچھ صاف دکھائی نہیں دے رہا ہے۔
محمد علی سدپارہ کے بیٹے ساجد علی سدپارہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنے والد کو آخری مرتبہ ’بوٹل نیک‘ سے بلندی پر چڑھتے ہوئے دیکھا تھا۔
ساجد علی سدپارہ نے گذشتہ روز سکردو میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے والد اور دیگر دو ساتھیوں کو آخری مرتبہ کے ٹو ’بوٹل نیک‘ سے 8 ہزار دو یا تین سو میٹر کی بلندی پر چڑھتے ہوئے دیکھا تھا۔ 
ساجد علی نے کہا کہ ان کے خیال میں علی سدپارہ اور دو ساتھی کے ٹو سر کر کے واپس آ رہے تھے کہ راستے میں کسی حادثے کا شکار ہو گئے۔
ایک سوال کے جواب میں ساجد سدپارہ نے کہا کہ 8,000 کی بلندی پر دو دن تک زندہ رہنے کے امکانات بہت کم ہیں، تاہم  کوہ پیماؤں کی تلاش کے لیے آپریشن جاری رکھنا چاہیے۔
نے بتایا کہ آکسیجن سلینڈر میں خرابی کے باعث ان کے والد نے انہیں واپس جانے کا کہا تھا جبکہ علی سدپارہ اور دیگر دو کوہ پیما آگے بڑھتے رہے۔
ساجد علی سدپارہ نے مزید کہا کہ آکسیجن نہ ہونے کی وجہ سے ان کی طبیعت خراب ہونا شروع ہو گئی تھی، اور دماغی حالت بھی اس وقت ٹھیک نہیں تھی۔
ساجد علی کا کہنا تھا کہ 12 بجے انہوں نے بوٹل نیک سے واپسی کا سفر شروع کیا تھا اور تقریباً شام پانچ بجے کیمپ سی پر پہنچ گئے تھے۔
انہوں نے مزید کہا کہ کیمپ سی پر پہنچنے پر واکی ٹاکی کے ذریعے رابطہ کر کے آگاہ کر دیا تھا کہ وہ پہنچ گئے ہیں، جبکہ دیگر ممبران مشن جاری رکھے ہوئے ہیں۔
محمد علی سدپارہ، آئس لینڈ کے جان سنوری اور چلی کے ژاں پابلو موہر کے ساتھ 24 گھنٹے سے زیادہ وقت گزرنے کے بعد بھی تاحال رابطہ ممکن نہیں ہوسکا ہے۔ ان کی تلاش کے لیے پاکستانی آرمی کے ہیلی کاپٹروں کی مدد بھی لی گئی ہے۔
سنیچر کو الپائن کلب کی جانب سے کی جانے والی ٹویٹس میں کہا گیا تھا کہ جمعے کے روز سے تینوں کوہ پیماؤں سے رابطہ منقطع ہو گیا تھا۔

شیئر: