انڈیا کی ریاست آسام میں سرکاری اراضی سے غیرقانونی تجاوزات ہٹانے کی مہم کے دوران پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں میں دو افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔
اس حوالے سوشل میڈیا پر بھی ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے جس میں پولیس کو ایک لاٹھی بردار شخص کو گولی مارتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔
پولیس اہلکاروں نے صرف لاٹھی بردار شخص کو گولی مارنے پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ ان کے زمین پر گرجانے کے بعد اس پر لاٹھیاں بھی برساتے رہے اور کندھے پر کیمرہ لٹکائے ایک شخص زمین پر پڑے زخمی شخص پر کودتا ہوا بھی دکھائی دیا۔
آسام پولیس کے ڈائریکٹر جنرل کے سرکاری اکاؤنٹ سے ایک ٹویٹ میں کہا گیا ہے کہ ’وائرل ویڈیو میں کیمرہ مین زخمی شخص پر کودتا ہوا نظر آرہا ہے اس کی شناخت ’بجوئے بونیا‘ کے نام سے ہوگئی ہے اور اسے سی آئی ڈی نے حراست میں لے لیا ہے۔‘
Currently in Sipajhar, taking stock of the ground situation.
The cameraman who was seen attacking an injured man in a viral video has been arrested.As per wish of Hon. CM @himantabiswa I have asked CID to investigate the matter.
Cameraman Bijoy Bonia is in @AssamCid 's custody.— DGP Assam (@DGPAssamPolice) September 23, 2021
محمد زبیر نامی انڈین صحافی نے کیمرہ مین بجوئے بونیا کی انڈین پولیس اہلکاروں کے ساتھ اور بھی تصاویر سوشل میڈیا پر شیئر کی ہیں۔
Assam Photographer. pic.twitter.com/Zr971J9RT7
— Mohammed Zubair (@zoo_bear) September 23, 2021
آسام میں ایک سینیئر پولیس افسر نے انڈین اخبار ’دا انڈین ایکسپریس‘ کو بتایا کہ ان جھڑپوں میں 9 پولیس اہکار بھی زخمی ہوئے ہیں اور ان میں سے ایک کی حالت تشویشناک ہے۔
پولیس افسر جی پی سنگھ نے دعویٰ کیا کہ ’پولیس نے وہی کیا جو اسے اپنے دفاع میں کرنا پڑا۔‘
آسام کے وزیراعلٰی ہیمنت بسوا سرما نے ان جھڑپوں کے بعد ایک کمیشن بنا دیا ہے جو پولیس کی جانب سے کیے جانے والے تشدد اور جھڑپوں کی تحقیقات کرے گا، تاہم انہوں نے غیر قانونی تجاوزات ہٹانے کی مہم کو ختم کرے سے انکار کردیا ہے۔
سوشل میڈیا پر شدید غم و غصہ
انڈین کانگریس کے سربراہ راہل گاندھی نے آسام حکومت پر الزام لگایا کہ یہ ’ریاست کی لگائی آگ‘ ہے۔
’میں اس ریاست میں رہنے والے بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ یکجہتی کے لیے ساتھ کھڑا ہوں۔ انڈیا کی کوئی بھی اولاد یہ ڈیزرو نہیں کرتی۔‘
Assam is on state-sponsored fire.
I stand in solidarity with our brothers and sisters in the state- no children of India deserve this. pic.twitter.com/syo4BTIXKH
— Rahul Gandhi (@RahulGandhi) September 23, 2021
انڈیا کی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی نے ایک ٹوئیٹ میں مظاہرین پر تشدد کو ’پولیس، پریس اور ریاست کا گٹھ جوڑ‘ قرار دیتے ہوئے لکھا کہ اس ظلم نے ہٹلر حکومت کی یاد دلادی۔
Police-press-state" trio nexus brutality reminds Hitler's regime#Assam #AssamHorror pic.twitter.com/FEkIQbro7R
— SDPI (@sdpofindia) September 24, 2021
بنگلور سے تعلق رکھنے والے ایک صارف عادل حسین نے ایک ٹویٹ میں لکھا کہ اس ویڈیو کو انڈین وزیراعظم نریندر مودی کی امریکہ میں موجودگی میں نیو یارک میں ٹائمز سکوائر سے نشر کیا جائے۔
I hope they play the video at Times Square during his trip. The world must see what they are doing in Assam with their eyes open. How many trigger warnings you would add?
— Adil Hossain (@adilhossain) September 23, 2021
جہاں لوگ اس تشدد کی مذمت کررہے ہیں، وہیں کچھ لوگ پولیس کی حمایت کرتے اور ڈنڈا بردار مظاہرین کی ویڈیوز شیئر کرتے نظر آئے۔
ابھیجیت مجمدار نامی صحافی نے ویڈیو کے ساتھ لکھا کہ یہ ہے وہ ’قاتل مجمع‘ جس سے آسام پولیس کو نمٹنا پڑا۔
This is the murderous mob of infiltrators and encroachers that the #Assam police had to deal with. This is why India needs a nationwide, watertight NRC. Nice job, @himantabiswa. pic.twitter.com/G5k6c5mlYH
— Abhijit Majumder (@abhijitmajumder) September 23, 2021
ٹوئٹر پر تصدیق شدہ اکاؤنٹ رکھنے والی صارف شفالی ویدیا نے لکھا کہ ’یہ ہیں زمینوں پر غیر قانونی طور قبضہ کرنے والے مسلمان جنہوں نے حملہ کیا۔‘
This is what really happened in Assam. The Muzlims were illegal encroaches who attacked! pic.twitter.com/qgwrin5foS
— Shefali Vaidya(@ShefVaidya) September 24, 2021