Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آسام میں پولیس تشدد کی ویڈیو: ’ہٹلر کے دور کی یاد آگئی‘

انڈیا کی ریاست آسام میں سرکاری اراضی سے غیرقانونی تجاوزات ہٹانے کی مہم کے دوران پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں میں دو افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔
اس حوالے سوشل میڈیا پر بھی ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے جس میں پولیس کو ایک لاٹھی بردار شخص کو گولی مارتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔
پولیس اہلکاروں نے صرف لاٹھی بردار شخص کو گولی مارنے پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ ان کے زمین پر گرجانے کے بعد اس پر لاٹھیاں بھی برساتے رہے اور کندھے پر کیمرہ لٹکائے ایک شخص زمین پر پڑے زخمی شخص پر کودتا ہوا بھی دکھائی دیا۔
آسام پولیس کے ڈائریکٹر جنرل کے سرکاری اکاؤنٹ سے ایک ٹویٹ میں کہا گیا ہے کہ ’وائرل ویڈیو میں کیمرہ مین زخمی شخص پر کودتا ہوا نظر آرہا ہے اس کی شناخت ’بجوئے بونیا‘ کے نام سے ہوگئی ہے اور اسے سی آئی ڈی نے حراست میں لے لیا ہے۔‘
محمد زبیر نامی انڈین صحافی نے کیمرہ مین بجوئے بونیا کی انڈین پولیس اہلکاروں کے ساتھ اور بھی تصاویر سوشل میڈیا پر شیئر کی ہیں۔
آسام میں ایک سینیئر پولیس افسر نے انڈین اخبار ’دا انڈین ایکسپریس‘ کو بتایا کہ ان جھڑپوں میں 9 پولیس اہکار بھی زخمی ہوئے ہیں اور ان میں سے ایک کی حالت تشویشناک ہے۔
پولیس افسر جی پی سنگھ نے دعویٰ کیا کہ ’پولیس نے وہی کیا جو اسے اپنے دفاع میں کرنا پڑا۔‘
آسام کے وزیراعلٰی ہیمنت بسوا سرما نے ان جھڑپوں کے بعد ایک کمیشن بنا دیا ہے جو پولیس کی جانب سے کیے جانے والے تشدد اور جھڑپوں کی تحقیقات کرے گا، تاہم انہوں نے غیر قانونی تجاوزات ہٹانے کی مہم کو ختم کرے سے انکار کردیا ہے۔
سوشل میڈیا پر شدید غم و غصہ
انڈین کانگریس کے سربراہ راہل گاندھی نے آسام حکومت پر الزام لگایا کہ یہ ’ریاست کی لگائی آگ‘ ہے۔
’میں اس ریاست میں رہنے والے بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ یکجہتی کے لیے ساتھ کھڑا ہوں۔ انڈیا کی کوئی بھی اولاد یہ ڈیزرو نہیں کرتی۔‘
انڈیا کی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی نے ایک ٹوئیٹ میں مظاہرین پر تشدد کو ’پولیس، پریس اور ریاست کا گٹھ جوڑ‘ قرار دیتے ہوئے لکھا کہ اس ظلم نے ہٹلر حکومت کی یاد دلادی۔
بنگلور سے تعلق رکھنے والے ایک صارف عادل حسین نے ایک ٹویٹ میں لکھا کہ اس ویڈیو کو انڈین وزیراعظم نریندر مودی کی امریکہ میں موجودگی میں نیو یارک میں ٹائمز سکوائر سے نشر کیا جائے۔
جہاں لوگ اس تشدد کی مذمت کررہے ہیں، وہیں کچھ لوگ پولیس کی حمایت کرتے اور ڈنڈا بردار مظاہرین کی ویڈیوز شیئر کرتے نظر آئے۔
ابھیجیت مجمدار نامی صحافی نے ویڈیو کے ساتھ لکھا کہ یہ ہے وہ ’قاتل مجمع‘ جس سے آسام پولیس کو نمٹنا پڑا۔
ٹوئٹر پر تصدیق شدہ اکاؤنٹ رکھنے والی صارف شفالی ویدیا نے لکھا کہ ’یہ ہیں زمینوں پر غیر قانونی طور قبضہ کرنے والے مسلمان جنہوں نے حملہ کیا۔‘

 

شیئر: