کراچی کے انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن (آئی بی اے) نے کیمپس میں مبینہ ہراسانی کے خلاف سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنے والے ایک طالب علم کو انسٹی ٹیوٹ سے بے دخل کر دیا ہے۔
اپنے ایک بیان میں آئی بی اے انتظامیہ کا کہنا تھا کہ بی ایس اکنامکس کے طالب علم کو متعدد بار انسٹی ٹیوٹ کے سوشل میڈیا قواعد کے حوالے سے مطلع کیا گیا جن پر عمل کرنا بشمول اساتذہ سب کی ذمہ داری ہے۔
اپنے بیان میں آئی بی اے کا مزید کہنا تھا کہ ’ان کی ڈسپلنری کمیٹی نے اس معاملے کو دیکھا اور اس نتیجے پر پہنچا کہ طالب علم نے مبینہ ہراسانی کے واقعہ کے سیاق و سباق کو سمجھے بغیر اور آئی بی اے کے قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے تفصیلات سوشل میڈیا پر شیئر کیں۔‘
IBA is known for its disciplinary rules, policies and the IBA Code of Conduct, which apply to all members of the faculty, staff and students.
To know more about the recent decision & action taken by the IBA Disciplinary Committee, read here: https://t.co/xRN7AytDJa
— IBA Karachi (@ibakarachi) September 29, 2021
آئی بی اے کی جانب سے کہا گیا کہ انسٹی ٹیوٹ کے ملازم جن پر ایک خاتون ملازم کو ہراساں کرنے کا الزام ہے ان کی تصویر بھی سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی جس کی وجہ سے ملازم اور ان کے ساتھیوں کی جسمانی اور دماغی سیفٹی خطرے میں پڑی۔
تاہم آئی بی اے کا کہنا ہے کہ طالب علم کو بے دخل کرنے کا فیصلہ ہراسانی کے کیس کو اجاگر کرنے پر نہیں لیا گیا بلکہ انسٹی ٹیوٹ کے قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی پر لیا گیا ہے۔
آئی بی اے سے بے دخل ہونے والا طالب علم کون ہے؟
کراچی میں مقیم وکیل جبران ناصر نے اپنی ایک انسٹاگرام پوسٹ میں لکھا کہ طالب علم کا نام محمد جبرائیل ہے جس کہ تعلق خیبر پختونخواہ کے علاقے لکی مروت سے ہے۔
انہوں نے لکھا کہ جبرائیل آئی بی اے میں فائنل ایئر کا طالب علم ہے اور انسٹی ٹیوٹ میں اس کا ایڈمیشن سکالرشپ پر ہوا تھا۔
’آج اسے سچ بولنے اور ایک مرد ملازم کی جانب سے ایک خاتون ملازم کو ہراساں کرنے کے حوالے سے آواز اٹھانے پر بے دخل کر دیا گیا ہے۔‘
سوشل میڈیا پر آئی بی اے تنقید
آئی بی اے کے اس فیصلے پر سوشل میڈیا پر بھی صارفین غم و غصے کا اظہار کر رہے ہیں۔
سوشل میڈیا پر ندا کرمانی نامی صارف نے لکھا کہ ’آئی بی اے ایک طالب علم کو ہراسانی کے خلاف آواز اٹھانے پر بے دخل کرکے ایک غلط مثال قائم کر رہا ہے۔‘
’مجھے امید ہے کہ یہ فیصلہ واپس لے لیا جائے گا۔‘
IBA is setting a terrible precedent with the expulsion of a student for speaking out against harassment on social media. Students must be given proper forums to be heard, but they can’t be penalised for expressing grievances outside those forums. Hope this decision is reversed.
— Nida Kirmani (@NidaKirmani) September 29, 2021
پاکستانی صحافی خرم حسین بھی اس فیصلے پر شدید ناخوش نظر آئے ان کا کہنا تھا کہ ایک فیس بک پوسٹ پر طالب علم کو انسٹی ٹیوٹ سے بے دخل کرنا ’بے وقوفی‘ ہے۔
IBA administration should be ashamed of itself. Expelling a student for a Facebook post is the height of idiocy. https://t.co/0viVwGZirj
— Khurram Husain (@KhurramHusain) September 29, 2021
اس معاملے پر پاکستان کے صوبہ سندھ کی حکمراں جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے اراکین بھی آئی بی اے پر تنقید کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔
جماعت کی خاتون رہنما شرمیلا فاروقی نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا کہ ’اس طالب علم کا جرم صرف اتنا تھا کہ اس نے ناانصافی کے خلاف اور خواتین کے حق میں آواز اٹھائی۔‘
Jibrael from Lakki marwat expelled from @ibakarachi for exposing a male staff harassing a female staff. His crime was to speak against injustice & women’s right. Disgusted & appalled by this action by #IBAKarachi pic.twitter.com/B1YSHMBIiW
— Sharmila Sahibah faruqui S.I (@sharmilafaruqi) September 30, 2021
صارفین کے توجہ دلانے پر پاکستان پیپلز پارٹی کی سینیٹر شیری رحمان نے کہا کہ ’ان کے خیال میں آئی بی اے بورڈ کو اس معاملے کو فوری طور پر ایڈریس کرنا چاہیے۔‘
I think the IBA board needs to address this issue immediately https://t.co/wgrw6fxcW1
— SenatorSherryRehman (@sherryrehman) September 30, 2021