Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’ناانصافی پر آواز اٹھانا طالب علم کا جرم‘: سوشل میڈیا پر آئی بی اے پر تنقید

طلبہ نے طالب علم کی بے دخلی کے خلاف احتجاج بھی کیا ہے۔ (فوٹو: شمیلہ غیاث)
کراچی کے انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن (آئی بی اے) نے کیمپس میں مبینہ ہراسانی کے خلاف سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنے والے ایک طالب علم کو انسٹی ٹیوٹ سے بے دخل کر دیا ہے۔
اپنے ایک بیان میں آئی بی اے انتظامیہ کا کہنا تھا کہ بی ایس اکنامکس کے طالب علم کو متعدد بار انسٹی ٹیوٹ کے سوشل میڈیا قواعد کے حوالے سے مطلع کیا گیا جن پر عمل کرنا بشمول اساتذہ سب کی ذمہ داری ہے۔
اپنے بیان میں آئی بی اے کا مزید کہنا تھا کہ ’ان کی ڈسپلنری کمیٹی نے اس معاملے کو دیکھا اور اس نتیجے پر پہنچا کہ طالب علم نے مبینہ ہراسانی کے واقعہ کے سیاق و سباق کو سمجھے بغیر اور آئی بی اے کے قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے تفصیلات سوشل میڈیا پر شیئر کیں۔‘
آئی بی اے کی جانب سے کہا گیا کہ انسٹی ٹیوٹ کے ملازم جن پر ایک خاتون ملازم کو ہراساں کرنے کا الزام ہے ان کی تصویر بھی سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی جس کی وجہ سے ملازم اور ان کے ساتھیوں کی جسمانی اور دماغی سیفٹی خطرے میں پڑی۔
تاہم آئی بی اے کا کہنا ہے کہ طالب علم کو بے دخل کرنے کا فیصلہ ہراسانی کے کیس کو اجاگر کرنے پر نہیں لیا گیا بلکہ انسٹی ٹیوٹ کے قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی پر لیا گیا ہے۔
آئی بی اے سے بے دخل ہونے والا طالب علم کون ہے؟
کراچی میں مقیم وکیل جبران ناصر نے اپنی ایک انسٹاگرام پوسٹ میں لکھا کہ طالب علم کا نام محمد جبرائیل ہے جس کہ تعلق خیبر پختونخواہ کے علاقے لکی مروت سے ہے۔
انہوں نے لکھا کہ جبرائیل آئی بی اے میں فائنل ایئر کا طالب علم ہے اور انسٹی ٹیوٹ میں اس کا ایڈمیشن سکالرشپ پر ہوا تھا۔
’آج اسے سچ بولنے اور ایک مرد ملازم کی جانب سے ایک خاتون ملازم کو ہراساں کرنے کے حوالے سے آواز اٹھانے پر بے دخل کر دیا گیا ہے۔‘

سوشل میڈیا پر آئی بی اے تنقید

آئی بی اے کے اس فیصلے پر سوشل میڈیا پر بھی صارفین غم و غصے کا اظہار کر رہے ہیں۔
سوشل میڈیا پر ندا کرمانی نامی صارف نے لکھا کہ ’آئی بی اے ایک طالب علم کو ہراسانی کے خلاف آواز اٹھانے پر بے دخل کرکے ایک غلط مثال قائم کر رہا ہے۔‘
’مجھے امید ہے کہ یہ فیصلہ واپس لے لیا جائے گا۔‘
پاکستانی صحافی خرم حسین بھی اس فیصلے پر شدید ناخوش نظر آئے ان کا کہنا تھا کہ ایک فیس بک پوسٹ پر طالب علم کو انسٹی ٹیوٹ سے بے دخل کرنا ’بے وقوفی‘ ہے۔
اس معاملے پر پاکستان کے صوبہ سندھ کی حکمراں جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے اراکین بھی آئی بی اے پر تنقید کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔
جماعت کی خاتون رہنما شرمیلا فاروقی نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا کہ ’اس طالب علم کا جرم صرف اتنا تھا کہ اس نے ناانصافی کے خلاف اور خواتین کے حق میں آواز اٹھائی۔‘
صارفین کے توجہ دلانے پر پاکستان پیپلز پارٹی کی سینیٹر شیری رحمان نے کہا کہ ’ان کے خیال میں آئی بی اے بورڈ کو اس معاملے کو فوری طور پر ایڈریس کرنا چاہیے۔‘

 

شیئر: