پاکستان کی قومی اسمبلی کے چوتھے پارلیمانی سال کے پہلے اجلاس میں وزیراعظم سمیت وفاقی کابینہ کے متعدد ارکان غیر حاضر رہے۔ جس کی وجہ سے ارکان کی ایوان کی کارروائی میں بھی عدم دلچسپی عروج پر رہی۔
کل آٹھ دنوں کے اجلاس میں سات دن کورم پورا نہ ہوسکا۔ ارکان کی اکثریت نے صرف حاضری لگا کر ایوان سے نکل جانا ہی مناسب سمجھا۔ صرف ایک دن کورم پورا ہوا جس کے لیے وزیراعظم نے حکمران جماعت کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس بلا کر ارکان کو ایوان میں جانے کا کہا لیکن خود پھر بھی ایوان میں نہ آئے۔
مزید پڑھیں
-
قومی اسمبلی کا اجلاس، ارکان کی دھکم پیل اور شدید ہنگامہ آرائیNode ID: 538286
-
وزیراعظم قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں شریک کیوں نہیں ہوئے؟Node ID: 579496
پارلیمنٹ میں قومی یکجہتی کا منظر، وزیراعظم کی خالی کرسی توجہ کا مرکز
17 ستمبر سے یکم اکتوبر تک جاری رہنے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں پہلے چھ دن مسلسل کورم ٹوٹتا رہا۔ اپوزیشن کی نشاندہی کے بعد کورم پورا نہ ہونے پر ہر بار سپیکر کو اجلاس ملتوی کرنا پڑا۔
ساتویں دن سینیٹ سے نامنظور ہونے والے بلوں کو مشترکہ اجلاس میں بھیجنے کی قرارداد منظور کروانے کے لیے وزیراعظم کو خود پارلیمنٹ ہاؤس آنا پڑا جہاں انھوں نے اپنی جماعت کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس کی صدارت کی اور ارکان کو ہدایت کہ وہ قرارداد کی منطوری میں حکومت کا ساتھ دیں جس کے بعد ایک دن کے لیے کورم پورا ہوا۔
قومی اسمبلی اجلاس میں کورم پورا کرنے کے لیے 86 ارکان کی حاضری ضروری ہوتی ہے لیکن قومی اسمبلی کی ویب سائٹ پر موجود حاضری ریکارڈ کے مطابق ان سات دنوں میں ایوان میں کم از کم حاضری 156 جبکہ زیادہ سے زیادہ حاضری 231 رہی۔ چار دن حاضری 200 سے متجاوز رہی لیکن اس کے باوجود حکومت کو کورم پورا کرنے میں شدید مشکلات کا سامنا رہا۔
سابق ایڈیشنل سیکریٹری قومی اسمبلی طاہر حنفی اس صورت حال کے حوالے سے کہتے ہیں کہ ’پہلی بات تو یہ ہے کہ قواعد میں ارکان کے اجلاس میں آنے کا کہا گیا ہے وہ کتنی دیر تک ایوان میں موجود رہیں گے۔ کوئی قدغن نہیں لگائی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر ارکان آتے ہیں اور حاضری لگانے کے ایوان سے نکل جاتے ہیں تاکہ مختلف دفاتر میں اپنے کام کاج کروا سکیں۔ اگر ارکان کی بائیو میٹرک حاضری اور آتے جاتے وقت انگوٹھا لگائیں تو ان کی ایوان میں حاضری کا وقت بھی معلوم ہو سکے گا۔‘

انھوں نے کہا کہ ’دوسری بات یہ ہے کہ پاکستان میں قومی اسمبلی کے ارکان ایوان میں اس لیے آتے ہیں کہ ان کی وزرا تک رسائی ممکن ہو سکے لیکن اس وقت تو موجودہ حکومت کے وزرا کی حاضری بھی مثالی نہیں۔ لگتا ہے وہ بھی ارکان کی طرح اپنے حلقوں میں مصروف ہیں۔ کیونکہ سیاسی محاوری ہے کہ قومی اسمبلی کے چوتھے سال میں اگر دشمن کے گھر بھی فوتگی ہو جائے تو وہاں بھی فاتحہ کے لیے جانا ضروری سمجھا جاتا ہے۔‘
طاہر حنفی کے مطابق ’ارکان کی کمیٹی اجلاسوں میں زیادہ دلچسپی ہوتی ہے اور ارکان کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کی کمیٹیوں کے اجلاس مسلسل چلتے رہیں۔‘
قومی اسمبلی کی ویب سائٹ پر ہی موجود حاضری ریکارڈ کے مطابق 28 وفاقی وزرا، چار وزرائے مملکت اور چار مشیروں میں سے زیادہ سے زیادہ حاضری 12 جبکہ کم از کم دو رہی ہے۔
علی محمد خان سات دن، زرتاج گل چھ دن، پرویز خٹک، نورالحق قادری، عمر ایوب اور شیریں مزاری تین دن، شفقت محمود، فرخ حبیب اور شبیر علی دو دن جبکہ امین الحق، فہمیدہ مرزا، مونس الٰہی، سید فخر امام اور صاحبزادہ محبوب سلطان صرف ایک دن اجلاس میں آئے۔ ان کے علاوہ وزیر ریلوے اعظم سواتی وزیر خزانہ شوکت ترین اور مشیر پارلیمانی امور بابر اعوان بھی اجلاس میں ایک ایک دن شریک ہوئے۔
