Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جام کمال کی مشکلات میں اضافہ، 11 حکومتی ارکان نے استعفے کا مطالبہ کردیا

بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) کے 9 ارکان اسمبلی سمیت حکومتی اتحاد میں شامل جماعتوں سے تعلق رکھنے والے 11 ارکان بلوچستان اسمبلی نے کوئٹہ میں مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران وزیراعلیٰ جام کمال خان سے استعفے کا مطالبہ کردیاہے۔
انہوں نے دھمکی دی کہ جام کمال آئندہ 24 گھنٹوں میں عہدے سے الگ نہ ہوئے تو ان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک سمیت تمام آپشنز استعمال کیے جائیں گے۔ 
پریس کانفرنس میں بلوچستان عوامی پارٹی سے تعلق رکھنے والے صوبائی وزیر خزانہ ظہور بلیدی، صوبائی وزیر خوراک سردار عبدالرحمان کھیتران، وزیراعلیٰ کے مشیر برائے ماہی گیراکبر آسکانی موجود تھے۔
مشیر محمد خان لہڑی، سکندر عمرانی، لالہ رشید بلوچ، ماہ جبین شیران، بشریٰ رند، لیلیٰ ترین، بی این پی عوامی کے صوبائی وزیر سماجی بہبود اسد بلوچ اورتحریک انصاف کے نصیب اللہ مری موجود تھے۔
ظہور بلیدی کا کہنا تھا کہ ’سپیکر عبدالقدوس بزنجو اور سردار صالح بھوتانی بھی ہمارے ساتھ ہیں مگر وہ کوئٹہ میں موجود نہیں اس لیے پریس کانفرنس میں شرکت نہیں کی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’بی اے پی کے 11 ارکان سمیت اتحادی جماعتوں کے چند ارکان کچھ عرصے سے وزیراعلیٰ پر عدم اعتماد کا اظہار کررہے ہیں جس کی وجہ صوبے میں بڑھتی ہوئی سیاسی بے چینی، بیڈ گورننس اور ترقیاتی معاملات کا منجمد ہونا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’وزیراعلیٰ کے حامی ارکان کے ساتھ گفت و شنید ہوئی جس میں ہم نے دو ہفتوں کا وقت دیا کہ وزیراعلیٰ کے خلاف صوبائی اسمبلی میں عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنے کے بجائے بہتر ہے کہ وہ عوام اور ارکان اسمبلی کی خواہش پر خود باعزت طور پر استعفیٰ دے دیں مگر وزیراعلیٰ نے استعفیٰ دینے کے بجائے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ ناراض ارکان کا گروپ ٹوٹ چکا ہے۔
اس موقع پر سردار عبدالرحمان کھیتران کا کہنا تھا کہ ’وزیراعلیٰ جام کمال کے پاس 65 ارکان اسمبلی میں سے صرف 13 یا 14 ارکان کی حمایت ہے۔‘
’وہ اخلاقی حمایت کے ساتھ ساتھ عددی اکثریت بھی کھوچکے ہیں اس لیے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیں۔‘

بلوچستان اسمبلی کے 65 رکنی ایوان میں وزیراعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے لیے سادہ اکثریت یعنی 33 ارکان کی ضرورت ہے (فائل فوٹو: آن لائن)

بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی کے اسد اللہ بلوچ نے کہا کہ ’جام کمال کو کابینہ کے اندر اور کابینہ کے باہر بارہا کہا کہ صلاح و مشورہ سے حکومت چلائیں مگر انہوں نے خود کو عقل کل سمجھا اور تمام معاملات ذاتی طور پر چلاتے رہے، ہم نے انہیں اپنے طرز عمل پر نظر ثانی کا بھی کہا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اس وقت صوبے میں طلبہ، ڈاکٹر، کسان، مزدور، اساتذہ اور بیوروکریسی سمیت ہر مکتبہ فکر ناراض اور حتجاج پر ہے۔‘
’ہم نے مل بیٹھ کر جام کمال کو پیغام دیا ہے کہ عہدہ چھوڑ دیں مگر وہ بضد ہیں۔ ایک فرد کی خاطر پورے بلوچستان کو قربان نہ کیا جائے۔‘  
اسد بلوچ کا کہنا تھا کہ ’وزیراعلیٰ ناراض ارکان کے گھروں کے چکر لگانے کے بجائے استعفیٰ دیں۔6 اکتوبر کی شام 5 بجے تک استعفیٰ نہ دیا تو ہم بڑا اعلان کریں گے جس میں عدم اعتماد کی تحریک بھی شامل ہوسکتی ہے۔‘
سردار عبد الرحمان نے کہا کہ ’حکومتی اتحاد کے 14 سے 15 ارکان ناراض ہیں، باقی اتحادی جماعتوں کے کئی ارکان بھی ہمارے ساتھ ہیں۔‘
’جام کمال ہر نارا ض ممبر کے گھر دو بار گئے ہیں اور پیغام دیا کہ جو مانگنا ہے دیں گے مگر ہم نے کہا کہ مانگتے تو بھکاری ہیں۔‘

’اس وقت حکومتی اتحاد کے 41 میں سے 14 ارکان واضح طور پر جام کمال کی مخالفت میں سامنے آگئے ہیں‘ (فائل فوٹو: بلوچستان حکومت ٹوئٹر) 

تحریک انصاف کے رکن بلوچستان اسمبلی نصیب اللہ مری نے کہا کہ ’تحریک انصاف بلوچستان میں فرد واحد کی نہیں بلوچستان عوامی پارٹی کی اتحادی ہے، جام کمال کو ہٹانے کے بعد بھی ہم بلوچستان عوامی پارٹی کا ساتھ دیں گے، ان کی جانب سے جو بھی قائد ایوان کے لیے نامزد ہوا ہم حمایت کریں گے۔‘
خیال رہے کہ بلوچستان اسمبلی کے 65 رکنی ایوان میں وزیراعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے لیے سادہ اکثریت یعنی 33 ارکان کی ضرورت ہے۔
حکومتی اتحاد کے مجموعی ارکان کی تعداد 41 بنتی ہے جن میں وزیراعلیٰ جام کمال کی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کے ارکان کی تعداد 24 ہے۔
حکومتی اتحادی میں تحریک انصاف کے سات، عوامی نیشنل پارٹی کے چار، بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی کے دو، ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے دو، جمہوری وطن پارٹی کا ایک، بی این پی عوامی سے الگ ہوکر پاکستان نیشنل پارٹی بنانے والے سید احسان شاہ بھی شامل ہیں۔
بلوچستان اسمبلی میں حزب اختلاف کے ارکان کی تعداد 23 ہے جن میں جمعیت علمائے اسلام کے 11، بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کے 10، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کا ایک اور ایک آزاد رکن سابق وزیراعلٰی نواب اسلم رئیسانی شامل ہیں۔
 مسلم لیگ ن کے منحرف رکن اور پیپلز پارٹی میں حال ہی میں شمولیت اختیار کرنے والے نواب ثناء اللہ زہری آزاد بینچ پر بیٹھے ہیں۔
اپوزیشن ارکان نے 14 ستمبر کو وزیراعلیٰ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک جمع کرائی تھی تاہم گورنر نے تکنیکی بنیادوں پر اجلاس بلانے کی سمری مسترد کردی تھی۔ 
سینیئر تجزیہ کار سلیم شاہد کے مطابق پریس کانفرنس میں باپ پارٹی کے 9 ارکان اور تحریک انصاف کا ایک رکن نصیب اللہ مری اور بی این پی عوامی کے اسد بلوچ موجود تھے۔
اسد بلوچ کی اہلیہ بھی رکن اسمبلی ہیں۔ بی اے پی کے سینیئر رہنما سپیکر عبدالقدوس بزنجو اور سردار صالح بھوتانی پہلے ہی جام کمال کے مخالف کیمپ میں شامل ہیں اس طرح ناراض ارکان نے اپنی عددی حیثیت ثابت کردی ہے۔ 
ان کا کہنا ہے کہ ’اس وقت حکومتی اتحاد کے 41 میں سے 14 ارکان واضح طور پر جام کمال کی مخالفت میں سامنے آگئے ہیں۔‘
’اپوزیشن کے 23 ارکان بھی ناراض دھڑے کے ساتھ ہیں۔ اس طرح 65 رکنی ایوان میں مجموعی طور پر 37 ارکان وزیراعلیٰ کے خلاف ہیں جو سادہ اکثریت سے بھی زائد ہیں۔ ایسی صورت میں جام کمال کی مشکلات میں بہت اضافہ ہوگیا ہے۔‘
صحافی و تجزیہ کار رشید بلوچ سمجھتے ہیں کہ جام کمال کے لیے اب اپنی کرسی بچانا مشکل ہوگیا ہے، اگر بات عدم اعتماد کی تحریک تک پہنچ گئی تو وزیراعلیٰ عددی اکثریت ثابت نہیں کرسکیں گے۔
دوسری جانب بی این پی مینگل کے سربراہ سردار اختر مینگل نے کہا ہے کہ ’ان کی جماعت وزیراعلٰی جام کمال کی حکومت گرانے میں کردار ادا کرے گی۔‘
ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ ’جام کمال اپنی ہی پارٹی کے لوگوں کو نہیں منا سکے۔تحریک عدم اعتماد پی ڈی ایم کی نہیں بلکہ ان کی ہے جن پر بکتر بند گاڑیاں چڑھائی گئیں۔‘

شیئر: