طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد افغان خواتین کی زندگی
رواں سال اگست میں افغانستان میں طالبان کے زیر اقتدار آنے اور امریکی انخلا کے بعد بین الاقوامی برادری نے افغان خواتین کی زندگی کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔
اگرچہ طالبان نے دوبارہ کنٹرول سنبھالنے کے بعد افغانستان میں 1990 کی دہائی کی اپنی طرز حکومت سے مختلف قسم کی حکمرانی کا وعدہ کیا جس میں خواتین کو ملازمت اور تعلیم کے مواقع سے محروم اور عوامی زندگی سے مکمل طور پر خارج کر دیا گیا تھا۔
انہوں نے دعوی کیا تھا کہ وہ خواتین کے حوالے سے اپنے رویوں میں تبدیلی لائے ہیں تاہم طالبان کے حالیہ اقدامات نے ایک بار پھر ان کے اس وعدے اور دعوے پر سوال کھڑا کر دیا ہے۔
طالبان کے دورِ حکومت میں افغان خواتین کی زندگی اب کیسی ہے دیکھیے روئٹرز کی ان تصاویر میں:
ایک خاتون نقاب اوڑھے بیوٹی پارلر میں داخل ہو رہی ہیں جہاں دیوار اور کھڑکیوں پر لگی خواتین کی تصاویر سے ان کے چہروں کو سفید رنگ کے پینٹ کی مدد سے مٹا دیا گیا ہے۔
ایک خاتون برقعہ اوڑھے زمین پر تندورکے پاس بیٹھی ہیں۔
خواتین مکمل پردے کے ساتھ گاڑی کی پچھلی سیٹوں پر بیٹھی سفر کر رہی ہیں۔
کابل کے ایک ہسپتال کے باہر ایک بچی خواتین کے ساتھ بیٹھی ہے۔
کابل کے ایک سکول میں افغان لڑکیاں سروں پر سکارف لیے کلاس روم میں کتابیں پڑھ رہی ہیں۔
اپنے صوبوں میں پُرتشدد کارروائیوں سے بچنے کے لیے فرار ہو کر آنے والے بے گھر افغان خاندانوں کی خواتین اور بچے کابل کے شہر نو پارک کی پناہ گاہ میں موجود ہیں۔
کابل میں پاکستان مخالف مظاہرے کے دوران ایک خاتون ہاتھ میں مائیک تھامے نعرے لگا رہی ہیں۔
ایک افغان بچی سڑک پر بیٹھی قلم بیچ رہی ہے۔