یہ مذکرات 17 ماہ سے جاری اس تناؤ کو کم کرنے میں ناکام رہے ہیں جو دونوں ملکوں کے درمیان بعض اوقات مہلک جھڑپوں کا باعث بنتا ہے۔
ان مذاکرات کی ناکامی کا مطلب یہ ہے کہ اب دونوں ممالک لداخ کے سخت سخت سردی والے سرحدی علاقوں اپنی فوجیں برقرار رکھیں گے۔
انڈیا کی وزارت دفاع نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اس نے ’تعمیری تجاویز‘ دی ہیں لیکن چینی فریق ’راضی نہیں‘ اور وہ ’کوئی آگے بڑھنے والی تجویز پیش نہیں کر سکا۔‘
چینی فوج کے ترجمان کی جانب سے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ’انڈین فریق غیر معقول اور غیر حقیقت پسندانہ مطالبات پر قائم ہے جس سے مذاکرات میں مشکلات میں اضافہ ہوتا ہے۔‘
دونوں افواج کے کمانڈروں نے لداخ کے علاقے میں چینی طرف واقع علاقے مالڈو میں دو ماہ کے وقفے کے بعد اتوار کو مذاکرات کے لیے ملاقات کی تھی۔
فروری کے بعد سے انڈیا اور چین دونوں نے پینگونگ تسو، گوگرا اور گالوان وادی کے شمالی اور جنوبی کناروں پر کچھ مقامات سے فوجیں واپس بلا لی ہیں لیکن وہ دونوں بعض دوسرے اہم علاقوں میں اضافی فوجیوں کو برقرار رکھے ہوئے ہیں۔
انڈین میڈیا رپورٹس کے مطابق ڈیمچوک اور دیپسانگ کے میدانوں میں فوجیوں کی تعداد میں اضافہ کیا گیا ہے۔
اتوار کی بات چیت کے دوران انڈین آرمی چیف کی طرف سے مایوسی اس وقت سامنے آئی جب انہوں نے چین کی طرف سے فوجیوں کی بڑے پیمانے پر تعیناتی پر سوال اٹھایا۔
انڈین جنرل ایم ایم نروا نے نے ہفتہ کو کہا کہ ’ہاں یہ تشویش کی بات ہے کہ بڑے پیمانے پر تعمیر ہو چکی ہے اور اب بھی جاری ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ (چین) وہاں رہنا چاہتا ہے۔ ہم ان تمام پیش رفتوں پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں لیکن اگر وہ وہاں رہنے کا ارادہ رکھتے ہیں تو ہم بھی وہیں رہیں گے۔‘
جنوری میں لداخ کے آگے کے علاقوں میں درجہ حرارت منفی 30 سیلسیس سے نیچے آ جاتا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
چین کی ویسٹرن تھیٹر کمانڈ کے سینئر کرنل لانگ شاؤوا کے بیان میں کہا گیا ہے کہ ’چین کی خودمختاری کی حفاظت کا عزم غیرمتزلزل ہے اور چین کو امید ہے کہ بھارت اس صورتحال کو غلط نہیں سمجھے گا۔‘
جنوری میں لداخ کے آگے کے علاقوں میں درجہ حرارت منفی 30 سیلسیس(منفی 22 فارن ہائیٹ) سے نیچے آ جاتا ہے۔ ماضی میں دونوں اطراف کی فوجیں اس وقت اپنے موسم گرما کی روایتی پوزیشنوں پر پیچھے ہٹتی تھیں لیکن مئی 2020 میں جب سے تصادم شروع ہوا تب سے یہ متنازع سرحد کے قریب تعینات ہیں۔
دونوں ممالک نے لائن آف ایکچول کنٹرول نامی ڈی فیکٹو بارڈر پر توپوں، ٹینکوں اور لڑاکا طیاروں سمیت ہزاروں فوجی تعینات کیے ہیں۔
گزشتہ برس 20 بھارتی فوجی متنازع سرحد پر چینی فوجیوں کے ساتھ جھڑپ میں مارے گئے تھے جبکہ چین نے کہا تھا کہ اس کے چار فوجی ہلاک ہوئے۔