Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

تربت: بچوں کی ہلاکت پرعدالت کا افسران کی معطلی کاحکم، مقدمہ درج

عدالت نے غفلت پر ڈپٹی کمشنر حسین جان، اسسٹنٹ کمشنر عقیل احمد اور نائب تحصیلدار رسول بخش کو بھی معطل کرکے ان کے خلاف تحقیقات کا حکم دیا۔ (فوٹو: فائل)
بلوچستان ہائی کورٹ نے کیچ کے علاقے ہوشاب میں دو بچوں کی ہلاکت کے واقعہ میں غفلت برتنے پر ڈپٹی کمشنر سمیت تین افسران کو معطل کرنے اور لواحقین کی خواہش کے مطابق ملوث ایف سی اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا حکم دے دیا۔
عدالت نے چھ دنوں سے کوئٹہ میں میتوں کے ہمراہ دھرنے پر بیٹھے لواحقین کو احتجاج ختم کرکے بچوں کی تدفین کی ہدایت بھی کی ہے۔
دریں اثنا بلوچستان ہائی کورٹ کے حکم پر ہوشاب واقعے کا مقدمہ سی ٹی ڈی تھانہ مکران میں ایف سی اہلکاروں کے خلاف انسداد دہشتگردی ایکٹ، دھماکہ خیز مواد ایکٹ، قتل اور اقدام قتل کی دفعات کے تحت درج کرلیا گیا تاہم مقدمے میں نامزد کسی اہلکار کی شناخت نہیں ظاہر کی گئی۔
چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس عبدالحمید بلوچ پر مشتمل بنچ نے واقعے کی تحقیقات کرائم برانچ کے تین سینیئر افسران سے کرانے کا حکم بھی دیا۔
بلوچستان کے ضلع کیچ کے ضلعی ہیڈکوارٹر تربت سے 130 کلومیٹر دور ہوشاب میں 10 اکتوبر کو دھماکہ خیز مواد پھٹنے سے چھ سے آٹھ سال عمر کے دو بہن بھائی شرہاتون اور اللہ بخش ہلاک جبکہ ایک بچہ زخمی ہوا تھا۔
لواحقین کا مؤقف تھا کہ بچوں کی موت گھر کے قریب واقع ایف سی چوکی سے داغے گئے مارٹر گولے سے ہوئی ہے جبکہ ایف سی حکام اور ڈپٹی کمشنر کیچ حسین جان بلوچ نے الزام رد کرتے ہوئے قرار دیا تھا کہ بچوں کی ہلاکت دستی بم پھٹنے سے ہوئی جنہیں وہ کھلونا سمجھ کر کھیل رہے تھے۔
لواحقین نے مبینہ طور پر ملوث اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج نہ ہونے کے خلاف دو دنوں تک ہوشاب اور تربت میں دھرنا دیا اور پھر میتیں لے کر 13 اکتوبر کو تقریباً 760 کلومیٹر فاصلہ طے کرکے کوئٹہ پہنچے اور زرغون روڈ پر گورنر اور وزیراعلیٰ بلوچستان ہاؤس کے قریب دھرنا دیا جو تاحال جاری ہے۔ دو دنوں سے کوئٹہ میں سریاب روڈ پر بھی بلوچ طلبہ نے لواحقین سے یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے سڑک بند کر رکھی تھی۔  
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر جمعیت علما اسلام کے سینیٹر کامران مرتضیٰ ایڈووکیٹ نے رجسڑار بلوچستان ہائی کورٹ کے نام خط لکھ کر عدالت عالیہ سے ماورائے عدالت قتل کے واقعہ کا نوٹس لینے کی اپیل کی تھی۔
عدالت نےاس خط کو آئینی درخواست میں تبدیل کرتے ہوئے پیر کو اس کی سماعت کی جس میں ایڈیشنل سیکریٹری داخلہ، ڈی آئی جی پولیس، ڈی سی کیچ، ایڈووکیٹ جنرل اور پراسیکیوٹر جنرل پیش ہوئے۔

بچوں کے لواحقین نے ضلعی ہیڈ کوارٹر تربت میں دھرنا دیا تھا۔ (فوٹو: سوشل میڈیا)

عدالت نے غفلت پر ڈپٹی کمشنر حسین جان، اسسٹنٹ کمشنر عقیل احمد اور نائب تحصیلدار رسول بخش کو بھی معطل کرکے ان کے خلاف تحقیقات کا حکم دیا۔
دو رکنی بنچ نے حکم دیا ہے کہ بچوں کو سرکاری طور پر شہید قرار دے کر ان کے لواحقین کی مالی مدد کی جائے اور کراچی میں زیر علاج زخمی بچے کا علاج سرکاری خرچے پر کیا جائے۔
ہائی کورٹ نے لیویز کی جانب سے ایک روز قبل نامعلوم افراد کے خلاف درج کی گئی ایف آئی آر کو ختم کرکے اس کی جگہ فوری طور پر نئی ایف آئی آر بچوں کے والد کی دبئی میں موجودگی کے باعث ان کے نانا محراب بلوچ کی مدعیت میں درج کرنے کا حکم بھی سنایا۔
درخواست گزار کامران مرتضیٰ کے جونیئر عمران بلوچ ایڈووکیٹ نے بتایا کہ عدالت نے قرار دیا کہ بچوں کے لواحقین کی استدعا کے مطابق ایف سی چوکی پر تعینات اہلکاروں کو مقدمے میں نامزد کیا جائے اور واقعے کی تحقیقات کرائم برانچ کے تین سینیئر افسران پر مشتمل کمیٹی سے کرائی جائے۔
کوئٹہ میں دھرنے میں شریک بلوچ طالبعلم رہنما ماہ رنگ بلوچ نے کہا کہ لواحقین کو عدالتی فیصلہ قبول ہے اور کاغذی کارروائی شروع ہونے کے بعد دھرنا ختم کردیا جائے گا۔

شیئر: