ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان نے برفانی چیتے کے عالمی دن پر خنجراب نیشنل پارک کے محفوظ مقام دیہنالہ میں برفانی چیتےکے دو بچوں کی موجودگی کے نایاب مناظر جاری کیے ہیں۔
یہ نایاب مناظر وائلڈ لائف کے مقامی فوٹوگرافر امتیاز احمد نے اپنے کیمرے کی آنکھ سے حاصل کیے ہیں جو اس بات کے عکاس ہیں کہ برفانی چیتے ماحولیاتی نظام میں توازن برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
پاکستان میں برفانی چیتے کے رہائشی مقامات 80 ہزار مربع کلومیٹر کے رقبے پر پائےجاتے ہیں۔ عالمی سطح کے اعتبار سے یہ دنیا بھر کا 4 اعشاریہ 5 فیصد حصہ ہے۔ اس مقام پر سخت موسمی حالات اور ناہموار سطح کے باعث صرف 11 فیصد حصے پر ہی تحقیق ہو سکی ہے۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف کی ایک حالیہ رپورٹ بتاتی ہے کہ عالمی سطح پر ہر سال 221 سے 450 کے لگ بھگ برفانی چیتے مارے جاتے ہیں۔ ان میں سے 55 فیصد ہلاکتیں اس صورت میں ہوتی ہیں جب مویشیوں کے شکار کے ردعمل میں مقامی افراد حملہ آور چیتوں کو ہلاک کر دیتے ہیں۔
ان مشکل حالات میں مقامی فوٹوگرافر کی جانب سے بنائی گئی نایاب ویڈیو برفانی چیتوں کے رہائشی مقامات اگاہی پھیلانے میں مدد گار ثابت ہوگی۔
فوٹوگرافر امتیاز احمد کا کہنا ہے کہ ’میں نے برفانی چیتے کے بچوں کی یہ منفرد ویڈیو بنائی ہے اور اب مزید ویڈیوز بنا رہا ہوں تاکہ میری کمیونٹی کو اس نایاب جنگلی نسل کے بارے میں مزید معلومات فراہم ہوسکے کہ یہ برفانی چیتے ہماری زندگی سے کس طرح منسلک ہیں۔‘
’ان ویڈیوز کی مدد سے مقامی افراد کو ان چیتوں کی زندگیاں بچانے کے لیے ان سے متعلق تاثرات اور رائے کو تبدیل کرنا ہوگا۔‘
ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان پچھلی پانچ دہائیوں سے ملک میں موجود پارکوں کے انتظام، برفانی چیتوں اورمقامی کمیونٹیز کے درمیان تنازعات کم کرنے، دیہی ترقی کے فروغ، جنگلی نایاب نسل کی غیرقانونی تجارت کم کرنے، خطرات سے دوچار جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے کام کر رہا ہے۔
برفانی چیتے کے بچوں کی اس نایاب ویڈیو پر ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کے سینیئر ڈائریکٹر برائے پروگرام رب نواز کا کہنا ہے کہ ’یہ بہت ضروری ہے کہ ہم اس نسل کی مدد کرنے والی آبادی کی اہمیت کو تسلیم کریں، نا صرف مقامی معاش کی پائیداری کے لیے بلکہ لاکھوں افراد کی زندگیوں کے لیے میدانی علاقوں میں پائے گئے گلیشیئر زراعت کے لیے ٹنوں کی مقدار میں نمی فراہم کرتے ہیں۔‘
’اس بات کا تعین کرنا بھی ضروری ہے کہ اس مقام پر کتنی تعداد میں جنگلی حیات موجود ہیں تاکہ ان کے رہائشی مقامات کے لیے مؤثر طریقے سے انتظامات کیے جائیں۔‘