طورخم سرحد کھل گئی،’ایک ہفتے میں 16 ہزار افغانوں کی آمد‘
طورخم سرحد کھل گئی،’ایک ہفتے میں 16 ہزار افغانوں کی آمد‘
جمعرات 28 اکتوبر 2021 13:55
طارق اللہ- پشاور
پاکستان اور افغانستان کے درمیان طورخم بارڈر 6 ماہ بعد مسافروں کی آمدورفت کے لیے کھول دیا گیا ہے تاہم ان کے داخلے کو ویزے سے مشروط کیا گیا ہے۔
سرحد کھلنے کے بعد گذشتہ سات روز میں 16 ہزار سے زائد افغان شہری پاکستان میں داخل ہوئے ہیں۔
طورخم بارڈر کورونا کے بڑھتے ہوئے کیسز کی وجہ سے رواں برس 5 مئی کو بند کردیا گیا تھا جبکہ اگست کے دوران افغانستان میں حالات تبدیل ہونے کے بعد سرحد پر داخلے کی شرائط مزید سخت کی گئی تھیں۔
بارڈر کی بندش کے دوران بھی علاج کی غرض سے افغانستان سے پاکستان آنے والے مریضوں اور پاکستان کا شناختی کارڈ رکھنے والے افراد کو داخلے کی اجازت دی جاتی تھی۔
اس کے علاوہ ایسے افغانیوں یا دیگرغیر ملکیوں کو بھی داخلے کی اجازت دی جاتی تھی جنہوں نے پاکستان کے راستے دیگر ممالک روانہ ہونا ہوتا اور ان کے پاس پاکستان کی وزارت داخلہ سے باقاعدہ اجازت نامہ بھی موجود ہوتا تھا۔
پاک افغان بارڈر جمعرات 21 اکتوبر کو پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے دورہ افغانستان کے فوری بعد مسافروں کے لیے دوبارہ کھولا گیا تھا جس کے بعد ہزاروں افغان شہری سرحد کی جانب اُمڈ آئے۔
بارڈر مینجمنٹ ڈیٹا کے مطابق گذشتہ سات روز کے دوران مجموعی طور پر 22 ہزار 13 افراد نے پاکستان اور افغانستان کی سرحد پار کی ہے۔
ان میں سے 16 ہزار 133 افغان شہریوں کی پاکستان آمد ہوئی جبکہ 5 ہزار 880 پاکستانی افغانستان روانہ ہوئے ہیں۔ سرحد پر داخلہ چونکہ ویزے کے اجرا سے مشروط ہے جبکہ سٹیکر ویزہ بارڈر پر ہی جاری کیا جاتا ہے۔
افغانستان میں حالات خراب ہونے اور طالبان کی جانب سے ملک کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد پاک طورخم بارڈر کو پیدل آنے جانے والے افراد کے لیے بند کردیا گیا تھا۔
اس وجہ سے بے شمار افراد کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ زیادہ تر افراد کاروبار سے وابستہ ہیں اور ان کا روزانہ کی بنیاد پر افغانستان آنا جانا رہتا ہے۔
کئی مسافر اب بھی شکوہ کرتے ہیں کہ سرحد کھلنے کے بعد بھی ان کا پاکستان میں داخلہ کافی مشکل ہے کیونکہ ویزہ کاؤنٹر پر بھیڑ کے علاوہ انہیں کورونا ٹیسٹ سمیت دیگر کئی لوازمات بھی پورا کرنا پڑتے ہیں۔
بعض مسافروں نے بھیڑ کے دوران اشیا کی چوری اور سامان لے جانے والوں کی جانب سے زائد پیسے لیے جانے کی شکایات بھی کی ہیں۔
اسلام آباد کی ایک نجی یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے والے الہام کا کہنا ہے کہ سرحد پار کرتے وقت بھگدڑ مچنے سے ان کے سامان میں موجود بیگ کسی دوسرے شخص کے ساتھ تبدیل ہوگیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ’ان کے بیگ میں ایک موبائل، لیپ ٹاپ اور دیگر قیمتی سامان موجود تھا جبکہ انہیں ملنے والے بیگ میں کپڑوں کے چند جوڑے موجود تھے۔‘
’لیپ ٹاپ اور موبائل میں میرا قیمتی ڈیٹا موجود تھا اور مجھے شک ہے کہ میرا بیگ کسی نے جان بوجھ کر تبدیل کیا ہے۔‘
خیال رہے کہ کچھ عرصہ پہلے امیگریشن آفس میں ملازمت کی مدت پورا ہونے کے بعد 27 ملازمین کو فارغ کردیا گیا تھا جس کی وجہ سے آنے والے افغانیوں کا امیگریشن عمل کافی سست روی کا شکار ہے۔
طورخم کے راستے آنے والے افغان شہری احمد افغان نے اردو نیوز کو بتایا کہ سفارت خانے سے ویزہ حاصل کرنے میں ان کا پورا دن لگ گیا۔
’اس کے بعد بارڈر پر بھی جانچ پڑتال کا عمل کافی سخت اور سست روی کا شکار رہا۔ وہ صبح دس بجے بارڈر پہنچ گئے تھے لیکن امیگریشن اور کورونا ٹیسٹ کی وجہ سے ان کا داخلہ رات آٹھ بجے ممکن ہوسکا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ وہ اپنے بھائی کے علاج کی غرض سے پاکستان آئے ہیں۔
طورخم بارڈر پر موجود نادرا آفس کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ کنٹریکٹ پر رکھے گئے تمام ملازمین کی مدت ملازمت ختم ہوگئی ہے اورعملے کی کمی کے باعث امیگریشن کے عمل پر اثر پڑا ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ انہیں ہر آنے والے مسافر کی کورونا کے حوالے سے مکمل جانچ پڑتال کی ہدایت کی گئی ہے جس پر کافی وقت لگتا ہے۔
’ہر مسافر کا پہلے کورونا ٹیسٹ کیا جاتا ہے اور اس کے بعد ویزے کی تصدیق کا عمل الگ ہوتا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ان کے پاس فی الوقت صرف دو افراد کا ایک ساتھ کورونا ٹیسٹ کرنے کی سہولت موجود ہے جبکہ ہزاروں افراد قطار میں بھی لگے ہوتے ہیں۔
نادرا کے اہلکار نے بتایا کہ امیگریشن کا عمل صبح 7 بجے سے شام 7 بجے تک کا ہے تاہم مسافروں کی بھیڑ کی وجہ سے اکثر رات 11 اور 12 بجے تک کام جاری رہتا ہے۔
مسافروں کی سہولت کے لیے مختلف ڈیسک بنائے گئے ہیں جن میں خواتین و حضرات، بزرگ افراد اور مریضوں کے لیے علیحدہ علیحدہ ڈیسک موجود ہیں۔
نادرا اہلکار نے یہ بھی بتایا کہ طورخم بارڈر پیدل آنے والے افراد کے لیے کھلنے کے بعد پاکستان سے افغانستان جانے والے افراد کی تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
ان میں کاروباری افراد کے علاوہ بے شمار ایسے افراد بھی ہیں جو اپنے رشتہ داروں سے ملنے کے لیے افغانستان جاتے ہیں۔
داخلے کی مشکلات کے باوجود افغانستان سے پاکستان آنے والے افغان شہری خوشی کا اظہار کر رہے ہیں۔
شفیع عمرخیل بھی پاکستان محنت مزدوری کے سلسلے میں آئے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ افغانستان میں سیاسی حالات بدلنے کے بعد وہاں معیشت پر بھی منفی اثر پڑا ہے اور انہیں مزدوری تلاش کرنے میں مشکل پیش آتی تھی۔
ان کا کہنا ہے کہ ’میرا کچھ عرصہ پہلے پاکستان میں محنت مزدوری کے سلسلے میں آنے کا تجربہ اچھا رہا تھا لہٰذا اب موقع ملنے پر میں دوبارہ آیا ہوں۔‘