وکیل برہان معظم نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ وہ سعد رضوی کی نظربندی کے خاتمے کے لیے دائر اپنی درخواست واپس لیتے ہیں جس پر عدالت نے مقدمہ نمٹانے کے احکامات جاری کیے۔
خیال رہے کہ بدھ کو لاہور ہائیکورٹ نے مذہبی کالعدم تنظیم تحریک لیبک کے سربراہ سعد رضوی کے وکیل کی استدعا پر انہیں مہلت دی تھی کہ وہ اس قانونی نکتے پر مطمئن کریں کہ جب نظربندی کا حکم ہی موثر نہیں رہا تو اس کے خلاف درخواست کیسے قابل سماعت ہوسکتی ہے۔
چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس امیر بھٹی کی سربراہی میں دو رکنی بنچ کو وکیل میاں پرویز حسین نے بتایا تھا کہ ’حکومت اور تحریک لبیک میں انڈرسٹینڈنگ ہوئی ہے۔ اس کا نتیجہ دیکھنا چاہتے ہیں۔‘
بینچ نے وکیل کو باور کرایا تھا کہ سوال انڈرسٹینڈنگ کا نہیں بلکہ درخواست کے قابل سماعت ہونے کا ہے۔
بنچ نے نشاندہی کی تھی کہ ’اگر ایک حکم ہی موجود نہیں تو پھر اس پر قانونی نکات پر کیسے بحث کی جاسکتی ہے۔ عدالت نے قانونی نکات پر بات کرنی ہے اس کے فلسفے پر نہیں۔‘
تحریک لبیک کے بانی خادم رضوی کے بیٹے سعد رضوی کو پنجاب حکومت نے رواں سال دو اپریل کو نقص امن کے خدشے کے تحت نظربند کیا تھا۔
مینٹیننس آف پبلک آرڈر (ایم پی او) کے قانون کے تحت سعد رضوی کی گرفتاری کے وقت حکومت نے الزام عائد کیا تھا کہ انہوں نے اپنی جماعت کے کارکنوں کو تشدد پر اکسایا اور قانون کو ہاتھ میں لینے کے لیے کہا۔
لاہور ہائیکورٹ نے گزشتہ ماہ سعد رضوی کی نظربندی کے احکامات کو ختم کر کے ان کی رہائی کا حکم دیا تھا تاہم پنجاب کی صوبائی حکومت نے عدالتی فیصلے پر عمل کے بجائے اس کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا تھا۔
سپریم کورٹ نے پنجاب حکومت کی اپیل پر سماعت کرنے کے بعد معاملہ دوبارہ لاہور ہائیکورٹ کو بھیج دیا تھا۔