Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پھانسی کا وقت نہ بتانے پر جاپانی قیدیوں کا حکومت کے خلاف مقدمہ

قیدیوں کے وکیل کا کہنا ہے کہ مقدمے میں حکومت سے دو کروڑ 20 لاکھ ین کا مطالبہ کیا گیا ہے (فوٹو: ان سپلیش)
جاپان میں سزائے موت کے دو قیدیوں نے پہلے سے پھانسی کا درست وقت نہ بتائے جانے پر حکومت کے خلاف مقدمہ کر دیا ہے۔ جاپان میں سزائے موت کے حوالے سے ایسا نظام ہے جس کے تحت قیدیوں کو سزائے موت کے بارے میں صرف کچھ گھنٹے قبل بتایا جاتا ہے، اس طریقہ کار کو قیدیوں نے ذہنی اذیت کا باعث قرار دیا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق جاپان، جہاں ایک سو سے زائد قیدی سزائے موت کے منتظر ہیں، ان چند ترقی یافتہ ممالک میں سے ہے، جہاں اب بھی سزائے موت دی جاتی ہے۔
وہاں عام طور پر سزا سنانے کے کافی عرصہ بعد سزائے موت دی جاتی ہے اور ایسا ہمیشہ پھانسی سے کیا جاتا ہے۔
کئی دہائیوں سے حکومت سزائے موت کے قیدیوں کو پھانسی سے تھوڑی دیر قبل ہی مطلع کرتی آئی ہے۔
تاہم دو قیدیوں نے اس عمل کو چیلنج کیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ موجودہ نظام غیر قانونی ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ قیدیوں کو پہلے سے نوٹس دیا جائے۔
یہ مقدمہ اوساکا کی ضلعی عدالت میں جمعرات کو درج کروایا گیا۔
قیدیوں کے وکیل کا کہنا ہے کہ مقدمے میں حکومت سے دو کروڑ 20 لاکھ ین کا مطالبہ کیا گیا ہے کیونکہ پھانسی کی تاریخ سے متعلق غیر یقینی صورتحال کے باعث ذہنی اذیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
وکیل یوٹاکا یوئیڈا نے اے ایف پی کو بتایا ہے کہ ’یہ طریقہ کار انسانی حقوق کو پامال کرتا ہے۔‘

جاپان میں 2018 میں 15 اور 2019 میں تین قیدیوں کو پھانسی دی گئی (فوٹو: ان سپلیش)

انہوں نے بتایا کہ سزائے موت کے قیدیوں کو اکثر پھانسی سے صرف ایک یا دو گھنٹے قبل اطلاع دی جاتی ہے۔ اس وجہ سے ان کے پاس اپنے وکیل سے رجوع کرنے یا مقدمہ درج کرنے کا وقت نہیں ہوتا۔
’ہر صبح گارڈ کے جوتوں کی آواز سن کر وہ اس ڈر میں مبتلا ہوجاتے ہیں کہ شاید آج وہی دن ہے۔‘
دستاویزات اور نیوز آرکائیوز سے ظاہر ہوتا ہے کہ جاپان میں سزائے موت کے مجرموں کو قبل از وقت نوٹس دیا جاتا تھا لیکن یہ عمل 1975 کے قریب روک دیا گیا تھا۔
جاپان میں 2019 میں تین قیدیوں کو پھانسی دی گئی تھی اور 2018 میں 15 کو، ان میں 13 کا تعلق اوم شنری کیو نامی دہشتگرد تنظیم سے تھا، جس نے ٹوکیو سب وے پر 1995 میں مہلک سارن گیس کا حملہ کیا تھا۔
مجرموں، جن میں سے اکثر سیریل قاتل ہوتے ہیں، کو آنکھوں پر پٹی، پیروں میں رسی اور ہاتھوں میں ہتھکڑی باندھ کر ایک جگہ لے جایا جاتا ہے اور پھر ان کو اس دروازے پر کھڑا کیا جاتا ہے، جسے کھولا جاتا ہے۔
وکیل کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’جاپان سزائے موت سے متعلق زیادہ تفصیلات نہیں ظاہر کرتا، جس کا مطلب ہے کہ اس بارے میں عوامی سطح پر کم ہی بات چیت ہوتی ہے، تاہم عالمی تنقید کے باوجود سزائے موت کو انسانی حقوق کے گروپوں اور عوام کی جانب سے حمایت حاصل ہے۔

شیئر: