سب کچھ رانا شمیم کے اصل حلف نامے پر منحصر ہے: ہائی کورٹ
سب کچھ رانا شمیم کے اصل حلف نامے پر منحصر ہے: ہائی کورٹ
منگل 30 نومبر 2021 9:55
وسیم عباسی -اردو نیوز، اسلام آباد
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے رانا شمیم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ بہت سنجیدہ معاملہ ہے۔‘ (فوٹو: ریڈیو پاکستان)
سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم نے کہا ہے کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے حوالے سے ان کا حلف نامہ سِیلڈ تھا اور انہیں نہیں معلوم کہ کیسے باہر گیا جبکہ انہوں نے کسی صحافی کو بھی نہیں دیا تھا جس پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے سات دن میں انہیں اصل حلف نامہ عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔
منگل کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں رانا شمیم کے بیان حلفی کی خبر چلانے پر جنگ گروپ اور رانا شمیم کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت ہوئی۔
کمرہ عدالت صحافیوں اور وکلا سے کچھا کھچ بھرا ہوا تھا۔ سب کی نظریں عدالت میں پہلی بار پیش ہونے والے گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا شمیم پر تھیں کہ وہ ملکی سیاست میں ہلچل مچانے والے اپنے اس حلف نامے کے حوالے سے کیا وضاحت دیں گے، جس میں سابق چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ انہوں نے مبینہ طور پر مریم نواز اور نواز شریف کو 2018 کے الیکشن سے قبل اسلام آباد ہائی کورٹ سے ضمانت نہ دینے کے حوالے سے اپنا اثر و رسوخ استعمال کیا تھا۔
دلچسپ بات یہ تھی کہ آج رانا شمیم نے پچھلی سماعت پر اپنی نمائندگی کرنے والے اپنے بیٹے احمد حسن رانا کو ہٹا کر سپریم کورٹ کے سینیئر وکیل عبد الطیف آفریدی کو اپنا وکیل نامزد کر دیا تھا۔
حلف نامہ جمع کروانے والے رانا شمیم آج پہلی بار عدالت میں پیش ہوئے جبکہ جنگ گروپ کے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمان، ایڈیٹر انویسٹی گیشن انصار عباسی اور ریزیڈنٹ ایڈیٹر عامر غوری کے علاوہ پی ایف یو جے اور پاکستان بار کونسل کے عدالتی معاونین بھی پیش ہوئے۔ اٹارنی جنرل خالد جاوید بھی معاون کے طور پر پیش ہوئے۔
سماعت شروع ہوئی تو اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے آغاز میں ہی واضح کیا کہ ان کی عدالت آزادی صحافت پر یقین رکھتی ہے اور اس حوالے سے عدالت کے تحریری فیصلے موجود ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہماری آزادی صحافت کی آزادی سے منسلک ہے، تاہم جس طرح دنیا بھر میں ہوتا ہے آزادی صحافت کے ساتھ کچھ ذمہ داریاں اور حدود وقیود بھی ہوتی ہیں، جن کا تمام جمہوری ممالک میں خیال رکھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عدالت نے اس کیس میں صحافتی اور عدالتی کمیونٹی سے معاونین مقرر کر رکھے ہیں۔
انہوں نے کہا وہ سمجھتے ہیں کہ 'جج کی توہین نہیں ہوتی، تاہم اس کیس میں عدالت اور اس کے ججوں پر شکوک کا اظہار کیا گیا ہے اور عوام کے عدالت پر اعتماد کو ٹھیس پہنچائی گئی ہے اس لیے وہ سمجھتے ہیں کہ یہ کیس ان کی عدالت کا احتساب ہے۔'
کیا رانا شمیم سے منسوب حلف نامہ درست ہے؟
عدالت نے پھر جج رانا شمیم سے مخاطب ہو کر پوچھا کہ ’کیا آپ نے اپنا تحریری جواب جمع کروایا ہے؟ جس پر رانا شمیم نے بتایا کہ ان کے وکیل عبدالطیف آفریدی بتائیں گے کہ تحریری جواب کیوں جمع نہیں ہو سکا۔
عدالت نے کہا کہ آپ تین دن میں جواب جمع کروا دیں جس پر رانا شمیم نے کہا کہ انہیں 12 دسمبر تک وقت دیا جائے کیونکہ انہوں نے اپنے بھائی اور بھابھی کی چالیسویں کی دعا میں شریک ہونا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ’اس عدالت کی عزت پر حرف آیا ہے اس سے زیادہ کچھ اہم نہیں ہے، آپ نے تین سال بعد عدالت پر شکوک پیدا کیے ہیں۔‘
جس پر رانا شمیم نے کہا کہ میں نے ابھی تک نہیں دیکھا کہ کون سا حلف نامہ اس ہائی کورٹ میں جمع کروایا گیا ہے۔ میں ابھی حلف دیکھ تو لوں ابھی تک دیکھا نہیں ہے۔
چیف جسٹس نے رانا شمیم سے مخاطب ہو کر کہا کہ 'آپ نے حلف نامہ کسی مقصد کے لیے دیا ہو گا۔ کیا ایسا کوئی حلف نامہ ہے یا نہیں آپ بتائیں گے۔ اگر ہے تو وجہ بتائیں کہ تین سال بعد آپ نے کیوں بنایا۔ آپ تحریری طورپر بتائیں۔'
'آپ نے حلف نامے میں اس عدالت اور اس کے سارے ججز کے حوالے سے شکوک کا اظہار کیا ہے۔ لوگوں گا اس عدالت پر اعتماد خراب کرنے کی کوشش کی ہے۔'
’شمیم صاحب یہ بہت سنجیدہ معاملہ ہے۔'
چیف جسٹس نے کہا کہ جنگ گروپ کا معاملہ الگ ہے انہوں نے صرف حلف نامے کو عوام تک پہنچایا مگر آپ نے حلف نامہ بنایا۔‘
عدالت نے پوچھا کہ آپ نے صحافی کو اپنے حلف نامے کی تصدیق کی جس پر رانا شمیم کا کہنا تھا کہ 'خبر کی اشاعت کے بعد صحافی کے رابطے پر انہوں نے تصدیق کی۔'
عدالت سے رانا شمیم سے استفسار کیا کہ اصلی حلف نامہ آپ کے پاس ہے تو انہوں نے کہا کہ 'اصلی حلف نامہ میرے پوتے کے پاس لندن میں لاکر میں ہے۔ وہ سِیلڈ تھا مجھے نہیں پتا کیسے باہر آیا۔ میں نے صحافیوں کو نہیں دیا۔'
اس موقع پر عدالتی معاون اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ اس کیس میں آئین کے آرٹیکل 19 کے تحت آزادی صحافت کا معاملہ ہے مگر میڈیا کا کردار ثانوی ہے اس لیے میڈیا کے خلاف کاروائی موخر کر کے رانا شمیم کے اوپر ذمہ داری عائد کی جائے۔
اٹارنی جنرل نے عدالت سے استدعا کی وہ رانا شمیم کو اصل حلف نامہ پیش کرنے کا حکم دیں جس پر چیف جسٹس نے اتفاق کیا اور رانا شمیم سے کہا کہ وہ اپنے جواب کے ساتھ اصل حلف نامہ پیش کریں۔
رانا شمیم نے عدالت کو بتایا کہ 'حلف نامہ لندن میں ان کے پوتے کے پاس ہے۔'
اٹارنی جنرل نے رانا شمیم سے پوچھا کہ کیا حلف نامہ آپ نے بنایا ہے؟ کیا پتا وہ پہلے سے بنا ہو اور آپ نے صرف دستخط کیے ہوں۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ 'رانا شمیم کے جواب نے خاصی پیچیدگی پیدا کر دی ہے اور اگر رانا شمیم کہہ دیں کہ حلف نامہ سیل ہے اور کسی کو نہیں دیا تو اخبار پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہو جاتی ہے کہ کہاں سے حاصل کیا۔'
اس موقع پر انصار عباسی نے رانا شمیم کے جواب میں بات کرنا چاہی تو چیف جسٹس نے کہا کہ ابھی رانا شمیم کا اصل حلف نامہ سامنے آنے دیں پھر اس پر مزید سماعت آگے بڑھے گی۔
عدالت نے رانا شمیم کو مخاطب ہو کر دوبارہ کہا کہ آپ اصلی حلف نامے کے ساتھ سات دسمبر تک جواب جمع کروائیں۔ آپ کے بیان نے اخبار کے لیے مسئلہ پیدا کر دیا ہے۔۔
اس موقع پر میر شکیل کے وکیل کا کہنا تھا کہ وہ سات دسمبر کو نیب کیس کی وجہ سے پیش نہیں ہو سکتے جس پر عدالت نے کہا کہ آپ کو حاضری سے استثنی مل جائے گا۔
عدالت نے انصار عباسی، میر شکیل اور عامر غوری کو ہدایت کی کہ اپنے تمام جوابات عدالتی معاون یعنی صحافی رہنما ناصر زیدی کو جمع کروا دیں۔
رانا شمیم کے بیان پر اٹارنی جنرل نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ رانا شمیم کو یاد بھی نہیں کہ 10 نومبر کے حلف نامے میں کیا لکھا ہے مجھے تو اپنے کئی سال پرانے کیس کی تفصیلات یاد ہوتی ہیں۔
رانا شمیم کی طرف سے لمبی تاریخ مانگنے پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایک ایک دن اہم ہے کیونکہ یہ عدالتوں پر الزامات کا سیزن ہے اس کیس کا جلد فیصلہ ہونا ضروری ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ’میں توہین پر یقین ہی نہیں رکھتا مگر یہ ایشو پیچیدہ ہو گیا ہے لوگوں کے عدالت پر اعتماد کا معاملہ ہے۔ سیاسی بیانیے سے اس عدالت کو تو محفوظ رکھیں۔'
رانا شمیم کا کہنا تھا کہ لندن سے حلف نامہ منگوانے میں وقت لگے گا جس پر اٹارنی جنرل نے پیش کش کی کہ وہ لندن میں حلف نامہ سفارت خانے میں جمع کروا دیں، میں بروقت عدالت میں پیش کرنے کی زمہ داری لوں گا۔
عدالت کا کہنا تھا کہ اب ہر چیز حلف نامے پر منحصر ہے۔ عدالت نے سماعت سات دسمبر تک ملتوی کر دی۔
سماعت کے بعد اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے خبر فائل کرنے والے صحافی انصار عباسی نے بتایا کہ 'رانا شمیم نے خبر فائل کرنے سے پہلے نا صرف حلف نامے کی زبانی تصدیق کی بلکہ ایک تحریری پیغام میں بھی حلف نامے کے متن کی تصدیق کی تھی۔'
انصار عباسی کے مطابق انہوں نے پورا حلف نامہ فون پر پڑھ کر حرف با حرف رانا شمیم کو سنایا جس کی انہوں نے تصدیق کی جس کے بعد خبر فائل کی گئی۔