پنجاب حکومت نے بھٹہ مزدوروں کے بچوں کے تعلیمی فنڈز کیوں روکے؟
پنجاب حکومت نے بھٹہ مزدوروں کے بچوں کے تعلیمی فنڈز کیوں روکے؟
جمعہ 3 دسمبر 2021 10:28
رائے شاہنواز -اردو نیوز، لاہور
بھٹہ کشت مزدوروں کے بچوں کے لیے ماہانہ وظائف بحال کرنے کا مطالبہ رکن پنجاب اسمبلی سمیرا کومل کی جانب سے کیا گیا۔ (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب کی اسمبلی میں اپوزیشن کی جانب سے ایک قرارداد پیش کی گئی ہے جس میں بھٹہ مزدوروں کے بچوں کے دیے جانے والے ماہانہ وظائف بحال کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
قرارداد میں کہا گیا ہے کہ غریب بچوں کو تعلیم کی مد میں دیے جانے والے ماہانہ اخراجات روکنا ایک ظالمانہ اقدام ہے۔
یہ قرارداد مسلم لیگ ن کی رکن پنجاب اسمبلی سمیرا کومل کی جانب سے جمع کی گئی ہے۔ بھٹہ مزدوروں کے بچوں کے لیے یہ وظائف مسلم لیگ ن کے دور حکومت میں شروع کیے گئے تھے تاہم گذشتہ تین برسوں سے یہ فنڈز رکے ہوئے ہیں اور ان بچوں کو نہیں دیے جا رہے۔
موجودہ حکومت کی جانب سے فنڈز کو روکے جانے کے بعد ان کا مزدوروں کے بچوں پر کیا اثرات مرتب ہوئے ہیں اس حوالے سے اردو نیوز نے مختلف مزدوروں کے خاندانوں سے بات کی ہے۔
قصور کے ایک بھٹے پر کام کرنے والے محمد ولایت نے بتایا کہ ان کے پانچ بچے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کچھ سال پہلے حکومت کے اس اعلان کے بعد کہ بھٹہ مزدروں کے بچوں کو سکول میں داخلے پر دو ہزار دیے جائیں گے اور ماہانہ ہزار تو انہوں نے اپنے پانچ بچوں کو سکول میں داخل کروایا تھا۔
’آپ سچی پوچھیں تو میں نے اپنے پہلے چاروں بچوں اور اگلے سال چھوٹی بچی کو بھی داخل کروا دیا تھا۔ تو ہمیں تو ہر مہینے اچھے خاصے پیسے مل جاتے تھے ہمیں بھی بچوں کو سکول بھیجنے میں کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ لیکن پھر یہ سب کچھ بند ہوگیا۔ اور پھر اس کے بعد ہمارے لیے گھر مشکل تھا۔ دو بڑے بیٹوں کو میں نے واپس کام پر لگا لیا۔ اور اب بھی تین بچے ہمارے ساتھ کام پر ہی جاتے ہیں۔ باقی دو ابھی چھوٹے ہیں۔ ہمارے لیے پہلا کام تو پیٹ کا ہے۔‘
پاکستان میں اکثر بھٹہ مزدور کے بچے اپنے والدین کے ساتھ مزدوری کرتے ہیں۔ (فوٹو: اےا یف پی)
قصور کے ہی ایک اور بھٹہ مزدور محمد علی نے اس حوالے سے بتایا کہ انہوں نے بھی اس حکومتی سکیم کے تحت اپنے دو بچوں کو سکول میں داخل کروایا تھا۔
محمد علی کے مطابق بعد میں جب یہ سکیم بند ہوئی تو بیٹے کو سکول سے اٹھوا لیا تھا تاہم بیٹی کو اب بھی پڑھا رہا ہوں۔
انہوں نے کہا کہ سرکاری سکول میں تعلیم کا خرچہ تو نہیں ہے لیکن یہاں کام کے لیے زیادہ لوگوں کی ضرورت ہے، اس لیے بیٹے کو ساتھ کام پر لگا لیا ہے۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کم عمر کے بچوں کو کام پر لگانا جرم ہے تو ان کا کہنا تھا کہ گذشتہ حکومت میں ان بھٹوں کو بند کرنا شروع کیا گیا تھا جہاں بچے کام کرتے تھے تاہم ہم نے احتجاج کیا تھا کہ کھانے کے پیسے نہیں تو بچوں کو سکول کیسے بھیج سکتے ہیں۔
’گذشتہ حکومت میں مذاکرات کے بعد سکول جانے والے بچوں کو وظیفے دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا تو ہم نے بھی بچے سکول بھیج دیے۔ اب حکومت نے سکیم بند کی ہے تو صورت حال پہلے جیسی ہو گئی ہے۔ حکومت بھی اب اس طرح سے بچوں کے کام کرنے پر سختی نہیں کر رہی۔ پہلے تو چھاپے مارتے تھے۔‘
مسلم لیک کے دور حکومت میں بھٹہ مزدور کے بچوں کو ماہانہ ایکہزار دیے جاتے تھے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
حکومت نے بھٹہ مزدوروں کے بچوں کے فنڈز کیوں بند کیے اس حوالے سے جب پنجاب حکومت کے ترجمان حسان خاور سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف کی حکومت سنبھالنے سے پہلے یہ فنڈز بند ہو چکے تھے۔
حسان خاور کا کہنا تھا کہ سابقہ حکومت نے یہ سکیم 2016 میں متعارف کروائی تھی جسں کے تحت بھٹہ مزدوروں کے بچوں کو سکول میں داخلے کے وقت دو ہزار اور ماہانہ ایک ہزار روپے دیے جاتے تھے۔ اور یہ پیسے پنجاب سوشل پروٹیکشن اتھارٹی کے ذریعے ان کے دیے جاتے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ 2018 کے مئی میں یہ سکیم بند کر دی گئی جب ابھی تحریک انصاف نے حکومت نہیں سنبھالی تھی۔
’یہ سکیم اس لیے بند کی گئی کیونکہ سکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ اس کی شرائط پوری نہ کر سکا۔ پیسے اسی بچے کو جاری ہوتے تھے جس کی سکول میں حاضری پوری ہوتی تھی۔ لیکن محکمہ حاضری سے متعلق ڈیٹا فراہم نہیں کرتا تھا اور اس طرح طرح کئی بچے سکولوں سے نکال لیے گئے تو یہ سکیم ہی بند کر دی گئی۔‘