تاریخ یاد رکھے گی کہ ایک انسان حیوانوں کے سامنے کھڑا ہوا: عمران خان
تاریخ یاد رکھے گی کہ ایک انسان حیوانوں کے سامنے کھڑا ہوا: عمران خان
منگل 7 دسمبر 2021 14:53
وزیراعظم عمران خان نے سیالکوٹ میں سری لنکن فیکٹری مینیجر پریانتھا کمارا کو مشتعل ہجوم سے بچانے کی کوشش کرنے والے ملک عدنان کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ سب نے دیکھا کہ ایک انسان راہ حق پر کھڑا ہے۔
منگل کو اسلام آباد میں پریانتھا کمارا کی یاد میں ہونے والی تعزیتی تقریب سے خطاب میں وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ’آج سارا پاکستان یہ فیصلہ کرچکا ہے کہ اس طرح کا واقعہ ملک میں نہیں ہونے دینا۔‘
خیال رہے کہ صوبہ پنجاب کے شہر سیالکوٹ میں جمعے کو ایک نجی فیکٹری کے مینیجر کو ورکرز نے توہین مذہب کے الزام میں تشدد کر کے ہلاک کر دیا تھا۔ فیکٹری مینیجر پریانتھا کمارا کا تعلق سری لنکا سے تھا۔
وزیراعظم نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ تاریخ یاد رکھے گی کہ ایک انسان تھا جو حیوانوں کے سامنے کھڑا ہوا۔
تقریب سے خطاب میں وزیراعظم نے کہا کہ 23 مارچ کے موقع پر ملک عدنان کو تمغہ شجاعت سے بھی نوازیں گے تاکہ لوگوں کو معلوم ہو کہ ایسے بھی پاکستانی موجود ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’ایک آدمی کو دیکھ کو انسانیت پر اعتماد بڑھا کہ اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر دوسرے شخص کی جان بچانے کی کوشش کی گئی۔ جس نے بھی دیکھا سب کو احساس ہوا کہ ایک انسان راہ حق پر کھڑا ہے۔ ملک میں رول ماڈلز کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ لوگ انہیں فالو کریں۔ اخلاقی قوت جسمانی قوت سے بہت زیادہ طاقت ور ہوتی ہے۔‘
وزیراعظم نے اعلان کیا کہ سیالکوٹ کی کاروباری کمیونٹی نے ایک لاکھ ڈالر اکٹھے کیے ہیں جو پریانتھا کمارا کے اہل خانہ کو دیے جائیں گے جبکہ ان کی تنخواہ ہمیشہ کے لیے جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔
کاروباری کمیونٹی نے متاثرہ خاندان کے لیے ایک لاکھ ڈالر اکٹھے کیے ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ آرمی پبلک سکول کا واقعہ ایسا خوفناک تھا جس کے بعد پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتی، سیالکوٹ میں پیش آنے والا واقعہ بھی ایسا ہی ہے جس کے بعد سارے پاکستان نے متحد ہو کر یہ فیصلہ کیا ہے کہ اس طرح کا واقعہ آئندہ نہیں ہونے دینا۔
’میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ جو بھی دین کو استعمال کرے گا ہم انہیں نہیں چھوڑیں گے۔‘
وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ ’ہم یہاں تماشا دیکھ رہے ہیں کہ لوگ دین کے نام پر مار رہے ہیں اور جلا رہے ہیں، کسی پر توہین مذہب کا الزام لگا دیا تو نہ کوئی وکیل اس کے لیے کھڑا ہوتا ہے اور نہ کوئی جج فیصلہ کرنے کو تیار ہوتا ہے۔ کون سے معاشرے میں ایسا ہوتا ہے کہ الزام بھی لگایا اور خود ہی فیصلہ بھی کر دیا۔‘