چہرے کا پردہ، قرآن مجید کی روشنی میں
اہلِ ایما ن کے لیے تو حکم ہی پردے کو واجب قرار دینے کے لیے کافی ہے، اللہ تعالیٰ کے اس حکم پر عمل کرنا واجب ہے، مستحب نہیں
ام عدنان قمر۔ الخبر
سورۃ الاحزاب (آیت95) میں فرمانِ الٰہی ہے
اے پیغمبر اپنی بیویوں اور بیٹیوں اورمسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دے (جب وہ راستے میں نکلیں تو) اپنی چادروں کے گھونگٹ اپنے اوپر ڈال لیا کریں، اس سے امید ہے کہ وہ پہچان لی جائیں گی اور ان کو کوئی تکلیف نہ دی جائے گی اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
اسلام نے انسانوں کی فلاح وبہبود کے لیے جو پاکیزہ تعلیمات دی ہیں، وہ انسانی فطرت کے عین مطابق ہیں۔ اس نے انسانی معاشرے کو اخلاقی بے راہ روی سے بچانے کے لیے سدِ ذرائع کی تعلیم دی ہے۔ سدِ ذرائع کا مطلب ہے برائی کا باعث بننے والی باتوں کی روک تھام کرنا، اس کے لیے ہمیں کہاںسے مدد ملے گی؟ اس سلسلے میں ہم سب سے پہلے اللہ کے کلام سورۃ الاحزاب (آیت2) میں دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کیا ارشاد فرما رہے ہیں:اور جو (کتاب) تم کو تمہارے رب کی طرف سے وحی کی جاتی ہے، اسی کی پیروی کئےجانا، بیشک اللہ تمہارے سب اعمال سے خبردار ہے۔
اس آیت میں تقوی پر مداومت اور تبلیغ و دعوت میں استقامت کا حکم ہے۔ تقوی کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی دی ہوئی روشنی کے مطابق اللہ کی اطاعت کرے اور اس سے ثواب کی امید رکھے اور اللہ کے عذاب سے ڈرتا رہے۔اللہ رب العزت نے حضرت محمد کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ مبعوث فرمایاتاکہ آپ تمام انسانوں کو ان کے غالب و ستودہ صفات پروردگار کے حکم کے مطابق اندھیروں سے روشنی کی طرف نکال لائیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپکو عبادت کی حقیقت واضح کرنے کے لیے مبعوث فرمایا۔ بندگی کا اظہار صرف اسی طرح ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اوامر کی مکمل اطاعت اور اس کی منع کردہ اشیا سے مکمل اجتناب کیا جائے۔ نیز اس کے احکامِ عالیہ کو خواہشات و شہواتِ نفسانیہ پر مقدم کرتے ہوئے اس کے حضور خاکساری اور انتہائی تواضع کی جائے۔ سعودی عرب، جو وحی و رسالت کا مرکزا ور حیا و حشمت کا گہوارہ ہے، یہاں ایک مدت سے اس معاملے میں لوگ سیدھے راستے پر گامزن تھے۔ عورتیں چادریں وغیرہ اوڑھ کر مکمل پردہ کرکے گھر سے نکلا کرتی تھیں ، غیر محرم مردوں کے ساتھ آزادانہ میل جول کا تصور تک ان میں نہ تھا، بحمد اللہ مملکت سعودیہ کے اکثر شہروں میں آج بھی یہی صورت حال ہے لیکن دورِحاضر میں جبکہ کچھ لوگوں نے پردے کے متعلق نامناسب انداز میں گفتگو شروع کی ہے، جو پردے کے قائل ہی نہیں یا کم از کم چہرے کو کھلا رکھنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے، ان لوگوں کو دیکھ کر ہمارے ہاں بھی کچھ لوگ شریعتِ مطہرہ کے اس حکم بالخصوص چہرہ ڈھانپنے کے متعلق غلط فہمی کا شکار ہونے لگے ہیں۔
ان کی طرف سے یہ سوال کیا جانے لگا ہے کہ پردہ واجب ہے یا مستحب؟ یہ شرعی حکم ہے یا اس معاملے میں ماحول، عادات اور رسم و رواج کو پیشِ نظر رکھ کر فیصلہ کرنا چاہیے؟ کیا ایسا تو نہیں کہ اس کی کوئی شرعی حیثیت ہی نہ ہو کہ اس کے واجب یا مستحب ہونے کا حکم لگایا جاسکے؟۔
اس قسم کے شکوک و شبہات اور غلط فہمیوں کے ازالے اور حقیقتِ حال کی وضاحت سے قبل یہ بھی عرض کر دیں کہ نبی اکرم کی بعثت کا مقصد مکارمِ اخلاق کی تکمیل بھی تھا۔ آپ نے ہر طریقے سے فضائل کی دعوت دی اور برے اخلاق کی بیخ و بن سے لوگوں کو بچنے کی ہر ممکن طریقے سے تلقین فرمائی۔ اس طرح شریعت محمدیہ ہر لحاظ سے کامل ہوکر سامنے آئی۔
رسولِ اکرمکو جن اعلیٰ اخلاق کے ساتھ مبعوث کیا گیا، ان میں سے ایک نہایت بلند مرتبہ اور گراں قدر وصف ’’حیا‘‘ ہے، جسے آپ نے ایمان کا جز اور اس کی شاخوں میں سے ایک شاخ قرار دیا ہے۔ کوئی عقل مند اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتا کہ عورت کا باوقار اور ایسی عادات واطوار کے ساتھ رہنا جو اسے مشکوک مقامات اور فتنوں سے دور رکھیں، یہ اس حیا کا حصہ ہیں جس کا عورت کو اسلامی شریعت اور اسلامی معاشرے میں حکم دیا گیا ہے۔ اس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں کہ عورت کا اپنے چہرے اور جسم کے دیگر پر کشش مقامات و اعضا کو ڈھانپ کر با پردہ رکھنا ہی اس کے لیے سب سے بڑا وقار ہے جس سے وہ اپنے آپ کو آراستہ کرسکتی ہے لیکن موجودہ دور کی نام نہاد روشن خیالی اور اعتدال پسندی کی تحریک نے جہاں اسلام کی دیگر اقدار کو نشانہ بنایا ہے وہیں حجاب کو بھی سرِ فہرست رکھا ہے ۔ روشن خیال حضرات کے نزدیک حجاب یعنی پردہ، جہالت اور پسماندگی کی علامت ہے جبکہ حجاب شریعتِ اسلامیہ کا ایک اہم ترین حکم ہے، جس کا مقصد معاشرے کو صنفی جذبات کے ہیجان سے پاک صاف رکھنا ہے۔ اس حکم پر عمل کرنے سے معاشرہ ایک نہیں بیسیوں فتنوں سے محفوظ ہوجاتا ہے۔ سورۃ الانعام (آیت38) میں ارشاد ِباری تعالیٰ ہے: یقینا تیرا رب بڑی حکمت والا ، خوب جا ننے والا ہے۔
رب تعالیٰ کا ہر فیصلہ حکمت سے بھر پور ہے اور وہ بندوں کی ضروریات سے بخوبی آگاہ ہے جبکہ اس کی خلاف ورزی کے نتیجے میں نوجوان نسل میں ایسے ایسے المناک اور زہر آلود فتنے جنم لیتے ہیں جن کا تدارک کرنا والدین کے بس کی بات نہیں رہتی۔ جہاں تک اہلِ ایمان خواتین کا تعلق ہے وہ تو ہر حال میں اللہ اور اس کے رسول کے ہر حکم پر برضا و رغبت عمل کرتی ہیں اور ایسے گھرانوں کی خواتین، گھروں کے اندر ستر اور گھر کے باہر حجاب کے احکام پر نہ صرف خوشدلی سے عمل کرتی ہیں بلکہ اس پر کسی قسم کی خفت یا ندامت محسوس نہیں کرتیں، وہ اللہ اور اس کے رسولکی اطاعت اور فرمانبرداری میں فخر محسوس کرتی ہیں۔
لباسِ تقویٰ
پردے کے متعلق مرد اور عورت دونوں کے لیے حکم ہے، ایسا نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے عورت کو ستر وحجاب کا حکم دیا ہے اور مرد جو چاہے پہنے، ایسا ہرگز نہیں ’’مرد جو چاہے نہیں پہن سکتا‘‘۔
ستر و حجاب ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے۔ مرد پر واجب ہے کہ وہ ناف سے گھٹنے تک کا حصہ بیوی کے سوا ہر ایک سے چھپائے۔ شریعت نے 10 سال سے بڑے بچوں کو اکٹھا سلانے سے منع کردیا ہے۔ دورِ جاہلیت میں عرب بر ہنہ ہوکر کعبہ کا طواف کیا کرتے تھے۔ وہ کہتے تھے: ہم ان کپڑوں میں طواف کیوں کریں جن میں اللہ کی نافرمانی کرتے ہیں۔ رسول اللہ نے 9 ہجری میں فرمان جاری کر دیا تھا کہ کوئی آدمی یا عورت برہنہ ہو کر کعبہ کا طواف نہ کرے۔
برہنہ ہو کر نماز پڑھنا تنہائی اور رات کے اندھیروں میں بھی جائز نہیں۔ رسول اللہ نے تنہائی میں بھی برہنہ ہونے سے منع کر دیا اور فرمایا: اللہ کاحق زیادہ ہے کہ اس سے حیا کی جائے۔
حج کے دوران میں احرام میں بھی مرد و عورت کے درمیان واضح فرق رکھا گیا ہے۔ اسلام نے مروں کو لباس، حلیے، چال ڈھال اور بول چال وغیرہ میں عورتوں کی مشابہت اختیار کرنے سے منع کر دیا ہے۔ مرد کو ٹخنوں سے نیچے تک کپڑا لٹکانے سے بھی روک دیا گیا ہے۔ عورت کو حکم دیا گیا کہ وہ اپنے قدم چھپائے،ا تو کپڑا لمباکرلے یا جرا بیں پہن لے۔ اللہ تعالیٰ نے اہلِ ایمان کو یہ بھی حکم دیا ہے کہ وہ دوسروں کے ان اعضاے جسم پر نگاہ نہ ڈالیں جو قابلِ اخفا ہوتے ہیں۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے عورت کے بناؤ سنگار کو بھی قصداً دیکھنے سے منع کردیا ہے۔ شریعتِ اسلامی نے ہر اس شے کو دیکھنا حرام قرار دیا ہے، جو شہوت بھڑکا ئے۔
شریعت نے یہ بڑ ے سلیقے کی چیز بتائی ہے۔ یوں نفسِ انسانی کو حرام سے دور رکھنے میں مدد ملتی ہے۔ یہ حجاب سے متعلقہ عمومی امور ہیں، جنھیں اللہ تعالیٰ نے مرد و عورت پر واجب ٹھہرایا ہے۔ عورت کا حجاب مرد سے زیادہ ضروری ہے، وہ اس لیے کہ للچائی نظریں عورت کی طرف جلدی اٹھتی ہیں۔ یوں اللہ تعالیٰ نے عورت کو زینت اور جسمانی حسن و جمال کو ڈھانپ کر رکھنے کا حکم دیا ہے۔ جسمانی حسن وجمال میں چہرے کو اولیت حاصل ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے سورۃ الاحزاب (آیت95) میںا علان فرما دیا ہے:اے نبی! اپنی بیویوں سے اور اپنی صاحب زادیوں سے اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ (باہر نکلا کریں تو) اپنے اوپر چادریں لٹکا لیا کریں، یہ اَمر ان کے لیے موجبِ شناخت (وامتیاز) ہوگا تو کوئی اُن کو ایذا نہ دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
اس آیت میں ’’جَلابِیْب‘‘ جِلبابٌ کی جمع ہے، ’’جلباب‘‘ اس چادر کو کہا جاتا ہے جو بہت بڑی ہو اور اس سے پورا بدن ڈھانپ لیا جائے۔ اپنے اوپر چادر لٹکانے سے مراد اپنے چہرے پر اس طرح گھونگٹ نکالنا ہے کہ جس سے چہرے کا بیشتر حصہ بھی چھپ جائے اور نظریں جھکا کر چلنے سے اسے راستہ بھی نظر آتا رہے۔ پاک و ہند یا دیگر اسلامی ممالک میں برقع کی جو مختلف صورتیں ہیں، عہدِ رسالت میں یہ برقع عام نہیں تھا کیونکہ عہدِ رسالت و عہدِ صحابہ و تابعین میںمعاشرت (رہن سہن) بالکل سادہ تھا۔
عورتیں نہایت سادہ لباس پہنتی تھیں، بناؤ سنگھار اور زیب و زینت کے اظہار کا کوئی جذبہ ان میں نہیں ہوتا تھا، اس لیے ایک بڑی چادر سے بھی پردے کے تقاضے پورے ہوجاتے تھے۔ آہستہ آہستہ وہ سادگی ختم ہوگئی، اس کی جگہ تجمل اور زیب و زینت نے لے لی اور عورتوں میں زرق برق لباس اور زیورات کی نمائش عام ہوگئی، جس کی وجہ سے چادر سے پردہ کرنا مشکل ہوگیا اور اس کی جگہ مختلف انداز کے برقعے عام ہوگئے۔
اس سے بعض دفعہ عورت کو بالخصوص سخت گرمی میں، کچھ دقت بھی محسوس ہوتی ہے لیکن یہ ذرا سی تکلیف شریعت کے تقاضوں کے مقابلے میں کوئی اہمیت نہیں رکھتی تاہم جو عورت برقع کے بجائے پردے کے لیے بڑی چادر استعمال کرتی ہے اور پورے بدن کو ڈھانپتی اور چہرے پر صحیح معنوں میں گھونگٹ نکالتی ہے، وہ یقینا پردے کے حکم کو بجا لاتی ہے کیونکہ برقع ہی کوئی ایسی لازمی شے نہیں ہے جسے شریعت نے پردے کے لیے لازمی قرار دیا ہو۔
لیکن آج کل عورتوں نے چادر کو بے پردگی اختیار کرنے کا ذریعہ بنا لیا ہے، پہلے وہ برقع کی جگہ چادر اوڑھنا شروع کرتی ہیں، پھر چادر بھی غائب ہوجاتی ہے، صرف دوپٹا رہ جاتا ہے اور بعض عورتوں کے لیے اس کا لینا بھی گراں ہوتا ہے۔ اس صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے کہنا پڑتا ہے کہ اب برقع کا استعمال ہی زیادہ صحیح ہے کیونکہ جب سے برقع کی جگہ چادر نے لی ہے، بے پردگی عام ہوگئی ہے بلکہ عورتیں نیم برہنگی پر بھی فخر کرنے لگی ہیں۔
قرآنِ کریم کی مذکورہ سابقہ آیت میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبی کریم کی بیویوں، بیٹیوں اور عام مومن عورتوں کو گھر سے باہر نکلتے وقت پردے کا حکم دیا گیا ہے جس سے واضح ہے کہ پردے کا حکم علمائ کا ایجاد کردہ نہیں بلکہ یہ اللہ کا حکم ہے جو قرآنِ کریم کی نص سے ثابت ہے، اس سے اعراض، انکار اور بے پردگی پر اصرار کفر تک پہنچا سکتا ہے۔
اس آیت سے دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ نبی کی صرف ایک ہی بیٹی نہیں تھی جیسا کہ رافضیوں کا عقیدہ ہے بلکہ آپ کی ایک سے زائد بٹیاں تھیں، جیسا کہ نص قرآنی سے واضح ہے اور یہ 4 تھیں، جیسا کہ تاریخ و سیرت اور احادیث کی کتابوں سے ثابت ہے۔
مذکورہ آیت میں صراحتاً چہرے کو چھپانے کا حکم دیا گیا ہے۔
پردے کی حکمت اور اس کے فائدے سے ایک شریف زادی اور باحیا عورت اور بے شرم و بدکار عورت کے درمیان تمیز و پہچان ہوگی۔ پردے سے معلوم ہوگا کہ یہ خاندانی عورت ہے جس سے چھیڑ چھاڑ کی جرأت کسی کو نہیں ہوگی۔
امام ابن جریر طبریؒ فرماتے ہیں:اس آیت میں شریف عورتوں کو حکم ہے کہ وہ لونڈیوں کنیزوں کی طرح کھلے چہرے اور کھلے بالوں کے ساتھ گھر سے نہ نکلیں۔
امام رازعی ؒاس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:زمانہ جہالت میں شریف عورتیں اور لونڈیاں سب کھلے منہ پھرتی تھیں، بدکار لوگ ان کا تعاقب کرتے تھے، اللہ تعالیٰ نے شریف عورتوں کو حکم دیا کہ وہ اپنے اوپر چادریں ڈال لیں اور یہ فرمایا کہ یہ مناسب طریقہ ہے کہ وہ پہچان لی جائیں۔
اس کے دو مطلب ہیں
ایک یہ کہ ان کے لباس سے پہچان لیا جائے گا کہ وہ شریف عورتیں ہیں، ان کا پیچھا نہ کیا جائے گا۔
دوسرا یہ کہ جو عورت اپنا چہرہ چھپائے گی، اس سے کوئی یہ امید نہ رکھے گا کہ وہ اپنی شرمگاہ کھولنے پر آمادہ ہوگی۔
اس آیت کی تفسیر میں تمام مفسرین نے پردے کے لیے ’’حکم‘‘ کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ ’’حکم‘‘ کا لفظ مستحب کے لیے استعمال ہوتا ہے یا واجب کے لیے؟ جب یہ کہا جاتا ہے کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے نماز پڑھنے اور روزہ رکھنے کا حکم دیا ہے تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ نمازو روزہ مستحب ہے، جس کا دل چاہے وہ روزہ رکھے اورجس کا نہ چا ہے وہ نہ رکھے اور جس کا دل چاہے نماز پڑھے جو نہ چاہے وہ نہ پڑھے؟
اہلِ ایما ن کے لیے تو حکم کا لفظ ہی پردے کو واجب قرار دینے کے لیے کافی ہے، اللہ تعالیٰ کے اس حکم پر عمل کرنا واجب ہے، مستحب نہیں۔ یاد رکھیے مستحب وہ عمل ہے جسے کرنے سے ثواب ہو اور نہ کرنے پر گناہ نہ ہو ، جبکہ واجب وہ عمل ہے جسے ترک کرنے والا گنہگار ہوتا ہے اور عذابِ الٰہی کا مستحق ٹھہرتا ہے۔
(جاری ہے)