Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

چہرے کا پردہ، قرآن مجید کی روشنی میں 2

مرد کے مبتلائے فتنه ہونے کے خوف کی بنا پر پازیب کی جھنکار کو ممنوع کیا گیا تو چہرے کو ننگا رکھنے کی اجازت کیسے ہو سکتی ہے؟ 
 
گزشتہ سے پیوستہ
ام عدنان قمر۔ الخبر
 
قرآنِ کریم کے متعدد مقامات پر اس بات کے واضح اشارات موجود ہیں کہ عورت کا چہرہ اور دونوں ہاتھ بھی مقامِ ستر ہیں اور ننگے منہ اس کا گلی بازار میں نکلنا جائز نہیں۔
اس سلسلے میں سب سے پہلے سورۃ النور (آیت13) میں ارشادِ الٰہی ہے:اور (اے پیغمبر!) مسلمان عورتوں سے کہہ دے کہ اپنی نگاہ نیچی کریں اور اپنی عصمت میں فرق نہ آنے دیں اور اپنی زینت ظاہر نہ کریں سوائے اس کے جو خود بخود ظاہر ہوجا ئے اور انھیں چاہیے کہ وہ اپنے سینوں پر آنچل (دوپٹے) کا پلو ڈالے رہیں۔
صحیح بخاری میں حضرت عائشہؓ کے بارے میں مروی ہے کہ انھوں نے فرمایا:اللہ تعالیٰ پہلی مہاجر صحابیات پر رحم کرے، جب یہ حکم نازل ہوا کہ عورتوں کو چاہیے کہ وہ اپنے سینوں پر اوڑھنیوں کے پلو ڈالے رہیں تو انھوں نے اپنی قمیصوں کے نیچے استعمال کی جانے والی چادروں کو پھاڑا اور ان کی اوڑھنیاں بنالیں۔
 
یعنی عورت کو چاہیے کہ اپنا بناؤ سنگار چھپا کر رکھے تاکہ اجنبی مرد کو نظر یں نیچی رکھنے میں مدد ملے۔ اسی آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :
اور اپنے پاؤں زمین پر نہ ماریں تا کہ ان کی وہ زینت معلوم ہو جو وہ چھپاتی ہیں۔
یعنی عورت پائل پہنے ہو تو اس پر حرام ہے کہ زمین پر زور زور سے پاؤں مار کر چلے۔ وجہ صرف یہ ہے کہ مرد پائل کی چھن چھن سنیں گے تو فتنے میںپڑ جائیں گے۔ عورت کے لیے جب ایسا کرنا حرام ہے تو چہر ے کو کھلا رکھنا کیو نکر جائز ہوسکتا ہے۔ مرد محض پائل کی جھنکار سن کر تو فتنے میں مبتلاہو گا لیکن کیا چہرے کی دلکشی و جلوہ سامانی اس کے ہوش نہ اڑائے گی؟ 
سورۃ الاحزاب (آیت35) میں فرمانِ الٰہی ہے:اور جب پیغمبر کی بیبیوں سے کوئی سامان مانگو تو پردے کے باہر سے مانگو، اس سے تمہارے دل اور ان کے دل شیطان کے وسوسوں سے خوب پاک رہیں گے۔
 
یہ آیت اس امر کی بڑی واضح دلیل ہے کہ عورت کے لیے چہرے کا پردہ واجب ہے۔ مطلب یہ کہ جب تم رسول اللہ کی ازواج سے (اور مومنوں کی ان عورتوں سے جو تمہاری ازواج نہیں) کوئی بات پوچھو تو پردے کی اوٹ سے پوچھو، ان کے گھروں میں مت جاؤ۔ یوں تمہارے اور ان کے دل پاکیزہ رہیں گے اور شیطان کو فساد انگیزی کا موقع نہیں ملے گا۔ حافظ ابن حجرؒ نے ’’فَاخْتَمَرْنَ بِہَا‘‘ کی شرح یہ کی ہے کہ ’’انھوںنے اپنے چہروں کو چھپالیا۔
 
اس سے مراد اوڑھنی یا دوپٹہ بھی ہے کہ وہ عورت کے منہ کو ڈھا نپ لیتا ہے ۔ فتح الباری میں حافظ ابن حجرؒ نے فراء سے نقل کیا ہے کہ زمانہ جاہلیت میں عورتیں اپنے پیچھے کی طرف دوپٹہ یا سر کا کپڑا لٹکا دیتی تھیں۔ آگے سے منہ اور سینہ کھلا رہتا تھا تو اللہ نے ان کو پردے کا حکم دیا۔
 
آزاد عورت کا سارا جسم ہی مقامِ ستر ہے۔ شوہر اور محرم کے سوا کسی غیر محرم مرد کو عورت کے جسم کا کوئی بھی حصہ دیکھنے کی ہرگز اجازت نہیں۔ سوائے علاج معالجہ اور شہادت وغیرہ کی ضرورت و مجبوری کے۔
اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو زینت ظاہر کرنے سے منع فرمایا ہے اور صرف اُس کی اجازت دی گئی ہے جو خود بخود ظاہر ہو جائے۔ اس سے صاف مطلب یہ معلوم ہو تا ہے کہ عورتوں کو خود اس کا اظہار اور اس کی نمائش نہیں کرنی چاہیے البتہ جو آپ سے آپ ظاہر ہو جا ئے (جیسے وہ چادر جو اوپر سے اوڑھی جاتی ہےکیو نکہ بہر حال اس کا چھپانا تو ممکن نہیں اور عورت کے جسم پر ہونے کی وجہ سے بہر حال وہ بھی اپنے اندر ایک کشش رکھتی ہے) اس پر اللہ کی طرف سے کوئی مواخذہ نہیں ۔ یہی مطلب اس آیت کا حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ، حسن بصری، ابن سیرین اور ابراہیم نخعی نے بیان کیا ہے۔
 
عہدِ نبوی میں حکمِ حجاب (پردہ) آجانے کے بعد عورتیں کھلے منہ نہیں پھرتی تھیں اور حکمِ حجاب میں منہ کا پردہ شامل تھا اور احرام کے سوا (جس میں منہ پر نقاب باندھنے کی ممانعت اور کپڑا لٹکا کر پردہ کر لینے کی گنجائش دی گئی ہے) دوسری تمام حالتوں میں نقاب کو عورتوں کے لباس کا ایک جز بنا دیا گیا تھا۔ سورت احزاب (آیت35) میں اللہ تعالیٰ نے اجنبی مردوں سے پردے کا حکم فرمایا ہے، لیکن بظاہر اس آیت میں اجنبی و غیر اجنبی سب شامل ہیں، لیکن اگلی آیت (55) میں اللہ تعالیٰ نے یہ صراحت کر دی ہے کہ یہاں محرم مراد نہیں بلکہ محارم اس حکم سے مستثنیٰ ہیں، چنانچہ ارشادِ الٰہی ہے:ان پر اپنے باپوں، بیٹوں، بھائیوں، بھتیجوں، بھا نجوں اور میل جول کی عورتوں اور اپنی کنیزوں غلاموں کے سامنے ( پردہ نہ کر نے میں ) کو ئی گناہ نہیں۔
 
یعنی عورت محرم کے سامنے چہرہ کھول سکتی ہے اور یہ وہ افراد ہیں جن سے عورت کا پردہ نہیں، اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ان کا ذکر فرما دیا ہے، جس کی تفصیل حدیث میں یوں ہے:شوہر،والد،سسر،بیٹا(سگا و رضاعی)،سوتیلا بیٹا(شوہر کا بیٹا)،بھائی (سگا، سوتیلا، رضاعی)،بھتیجا،بھانجا،اپنی خواتین،غلام اور نابالغ بچہ۔
 
لہٰذا اجانب اور محارم کا فرق واضح ہو گیا۔ ایسے ہی محارم کے سامنے ہاتھوں اور منہ کے سوا جن بعض اعضا کو کھولنے کی اجازت ہے، اس سلسلے میں متعدد احادیث مروی ہیں۔
 
سنن ابو داود اور سنن کبریٰ بیہقی میں حضرت انسؓسے مروی ہے کہ نبی اکرم اپنی لختِ جگر حضرت فاطمہ ؓ کے پاس اپنے آزاد کردہ غلام کے ہمراہ تشریف لائے۔ اس وقت حضرت فاطمہؓ کے سرپر ایک اوڑھنی تھی، جب وہ اپنا سر ڈھانپتیں تو وہ پاؤں تک نہیں پہنچتی تھی اور جب پاؤں چھپاتیں تو سر تک نہیں پہنچتی تھی۔ نبی اکرم نے جب اپنی لختِ جگر کو ذہنی الجھن میں دیکھا تو ارشاد فرمایا:تمہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، تیرا باپ اور غلام ہی تو ہیں۔
 
اس حدیث میں اس بات کی دلیل موجود ہے کہ باپ (اور دیگر محرم مرد) عورت کا سر اور بال دیکھ سکتے ہیں اور یہی حکم غلام کے لیے ہے، یعنی سر اور پاؤں باپ اور غلام کے لیے ستر نہیں۔ ام المومنین حضرت عائشہؓ، حضرت سعید بن مسیبؒ اورایک قول میں امام شافعیؒ، ان کے اصحاب اور دیگر اکثر سلف صالحین کا یہی مسلک ہے۔
 
تفسیر کشاف اور ابن کثیر میں مذکور ہے کہ زمانہ جاہلیت میں عورتیں سروں پر ایک طرح کے کساوے سے باند ھے رکھتی تھیں، جن کی گرہ جوڑے کی طرح پیچھے چوٹی پر لگائی جا تی تھی۔ سامنے گریبان کا ایک حصہ کھلا رہتا تھا جس سے گلا اور سینے کا بالائی حصہ صاف نمایاں ہوتا تھا۔ چھاتیوں پر قمیص کے سوا اور کوئی چیز نہیں ہوتی تھی اور پیچھے دو دو، 3،3 چوٹیاں لہراتی رہتی تھیں۔
 
ابن ابی حاتم کی روایت سے بھی پردے کا پتا چلتا ہے۔ چنانچہ ابن ابی حاتم نے صفیہ بنت شیبہ کے حوالے سے ایک روایت بیان کی ہے، جس میں وہ بیان کرتی ہیں کہ ہم ام المومنین حضرت عائشہؓ کے پاس بیٹھی تھیں کہ قریشی عورتوں کے فضائل کی بات چل نکلی تو حضرت عائشہؓ نے فرمایا:قریشی عورتوں کے بڑے فضائل ہیں لیکن اللہ کی قسم میں نے انصاری عورتوں سے افضل کوئی عورتیں نہیں دیکھی۔ وہ کتاب اللہ کی تصدیق اور وحی پر ایمان لانے میں بڑی شدید ہیں۔ جب سورہ النور میں اللہ تعالیٰ نے یہ حکم نازل فرمایا کہ عورتیں اپنی اوڑھنیوں کے آنچل اپنے سینوں پر ڈالے رہیں، ان کے مرد لوٹ کر ان کی طرف گئے اور انھوں نے انھیں وہ آیات سنائیں جن میں پردے کا حکم نازل ہوا تھا۔
 
ہر مرد نے اپنی بیوی، بیٹی، بہن اور دوسری قرابت دار عورتوں کو وہ آیات سنائیں، ان عورتوں سے ہر کوئی اٹھی اور اپنی چادر (تہمد والی جو پاؤں تک لمبی قمیص کے نیچے پہنے ہوئے تھیں) کو پھاڑا اور اس سے سر اور منہ کا پردہ کیا تاکہ کتاب اللہ کی نازل شدہ اس آیت کی تصدیق اور ایمان کا اظہار ہو جائے۔ وہ عورتیں نبی اکرم کے پیچھے نماز میں اس طرح ہو گئیں، جیسے (سیاہ اوڑھنیوں کی وجہ سے) گویا ان کے سروں پر کوے بیٹھے ہیں۔
شیخ محمد بن صالح العثیمینؒ اپنے رسالے ’’المرأۃ المسلمۃ، احکام فقہیہ حول الحجاب‘‘ میں لکھتے ہیں
عورت کو جب اپنے سینے پر اوڑھنی کا پلو ڈالے رکھنے کا حکم ہے تو چہرے کا پردہ بھی اس پر واجب ہے کیو نکہ چہرے کا پردہ گریبان کے پردے کا لازمی حصہ ہے یا قیاس کا تقاضا ہے اور جب گلے اور سینے کا پردہ واجب ہے تو چہرے کا پردہ بالاولیٰ واجب ہےکیو نکہ چہرہ ہی مقامِ حسن وجمال اور باعثِ فتنہ ہے اور جو لوگ جمالِ صورت کا مطالبہ کر تے ہیں تو صرف چہرے کے جمال ہی کی بات ہو تی ہے اور جب کوئی کہے کہ فلاں عورت بہت حسین وجمیل ہے تو اس کی بات سے اس کے چہرے کے جمال کے سوا اور کوئی معنی نہیں سمجھا جاتا کیونکہ طلب وخبر ہر دو اعتبار سے چہرہ ہی مقامِ حسن و جمال ہے اور جب ایسا ہے تو پھر یہ کیسے سمجھا جاسکتا ہے کہ مبنی بر حکمت شریعتِ اسلامیہ عورت کے گلے اور سینے کے پردے کا تو حکم دے اور چہرہ ننگا رکھنے کی اجازت دے دے؟
 
سورہ النور کی آیت (13) کے دوسرے الفاظ میں ارشادِ الٰہی ہے:اور عورتیں اپنے پاؤں زمین پر مارتے ہوئے نہ چلیں تاکہ وہ زینت جو وہ چھپائے ہوئے ہیں اس کا لو گوں کو علم ہو سکے۔
 
اس آیت کی تفسیر بیان کرتے ہوئے علامہ عبدالقادر حبیب اللہ سندھی ؒنے اپنے رسالہ ’’الحجاب‘‘ میں لکھا ہے
ان الفاظ میں اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو زمین پر پاؤں مار کر چلنے سے بڑی شدت کے ساتھ روکا ہے تاکہ ان کے پاؤں کے زیورات پازیب وغیرہ کی آواز نہ سنی جاسکے۔ یہ حکم ان کے شرف کے تحفظ اور شر کا دروازہ بند کرنے کے لیے دیا گیا ہے جو عورت کی عفت وعصمت کے تحفظ کی انتہا ہے۔ جب اس آیتِ کریمہ کی رو سے عورت کی پازیب کی جھنکار بھی ممنوع ہے تو پھر کسی مسلمان کے لیے یہ کیسے روا ہوسکتا ہے کہ بعض ضعیف و منکر اور غیر صحیح روایات کا سہارا لیتے ہوئے یہ کہے کہ عورت کا چہرہ اور ہاتھ مقامِ ستر اور زینت نہیں اور انھیں وہ غیر محرم لوگوں کے سامنے ننگا کرسکتی ہیں۔
 
علامہ عثیمینؒ لکھتے ہیں
مرد کے مبتلائے فتنہ ہونے کے خوف کی بنا پر پازیب کی جھنکار کو ممنوع کیا گیا ہے تو چہرے کو ننگا رکھنے کی اجازت کیسے ہو سکتی ہے؟ ان ہر دو میںسے ازروے فتنہ سامانی کون سی چیز بڑی ہے؟ ایک طرف پائل یا پازیب کی جھنکار ہے مگر عورت پردے میں ہے ۔ نہیں معلوم بوڑھی ہے یا جوان، حسین و جمیل ہے یا قبیح المنظر؟ اور دوسری طرف ایک عورت ننگے منہ ہے، چہرہ فطرتی حسن وجمال کے ساتھ ساتھ مصنوعی زیب و زینت کی بدولت فتنہ بردوش ہے، ہر نفس خواہش عطا کیا گیا ہے، ہر باشعور انسان بخوبی سمجھ سکتا ہے کہ ان ہر دو میں سے کونسی زینت زیادہ فتنے کا باعث اور مستور و مخفی رہنے کی زیادہ حقدار ہے؟ 
 
اسی مفہوم کی ایک دوسری آیت سورہ النور (آیت60) میں ارشادِ الٰہی ہے:اور بڑی عمر کی عورتیں جن کو نکاح کی توقع نہیں رہی اگر وہ اپنی اوپر والی چادر اُتار دیں تو ان پر کچھ گناہ نہیں بشرطیکہ اپنی زینت کی چیزیں نہ ظاہر کریں اور اگر اس سے بھی بچیں تو یہ ان کے حق میں بہتر ہے اور اللہ تعالیٰ سننے والا اور جاننے والا ہے۔
 
حضرت سعید بن جبیر، مقاتل، ضحاک اور قتادہ نے کہا ہے کہ اس آیت میں ’’قواعد‘‘ سے مراد وہ عورتیں ہیں جن کو بڑھاپے کی وجہ سے حیض آنابند ہو چکا ہو اور وہ اولاد پیدا کر نے کی عمر سے گزر چکی ہوں۔ اس آیت میں بوڑھی عمر رسیدہ خواتین کو جو کپڑے اتار کر رکھ دینے کی اجازت دی گئی ہے تو ظاہر ہے کہ اس سے عریاں ہوکر بیٹھنا ہرگز مراد نہیں بلکہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے یہاں کپڑوں سے مراد ( زیب و زینت کو چھپانے والی) اوپر کی بڑی چادر (جلباب) مراد لی ہے۔
 
یہ حکم بوڑھی عورتوں کے لیے ہے جبکہ نوجوان عورت صاحبِ حسن و جمال ہے، جس میں جاذبیت و دلکشی کا عنصر بھی پایا جاتا ہے۔ اس کے لیے جائز نہیں کہ وہ چادر اتا رد ے بلکہ اس پر واجب ہے کہ اپنے پروردگار کے اس حکم کا التزام کرے جس میں اسے چادر اوڑھنے اور چہرہ تک چھپانے کا حکم دیا گیا ہے۔
 
یہ نوجوان عورت کے لیے چہرے کے پردے کے واجب ہونے کی ایک دوسری دلیل بھی ہے جبکہ بوڑھی عورتوں کے لیے بھی یہ کوئی ضروری نہیں کہ وہ چادریں اتار پھینکیں بلکہ انھیں بھی اس بات کی ترغیب دلائی گئی ہے کہ اجازت کے باوجود اگر وہ حیاداری کریں اور چادریں اوڑھے رہیں تو یہی ان کے لیے بہتر ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سلف صالحینِ امت کی خواتین نے بڑھاپے میں چادر اتار دینے کی اجازت کے باوجود حیاداری و پردہ داری کی ترغیب والے فعل کو ہی اپنایا اور ہمیشہ اپنے چہرے کا بھی پردہ کیا۔ چنانچہ سعید بن منصور، ابن المنذر اور امام بیہقی نے سنن کبریٰ میں عاصم الاحوال سے ایک روایت بیان کی ہے، جس میں وہ بیان کرتے ہیں کہ ہم (ایک عمر رسیدہ فاضل خاتون) حضرت حفصہ بنت سیرینؒ کے پاس جایا کر تے تھے، انھوں نے ایک بڑی چادر (جلباب) ایسی بنا رکھی تھی کہ جس سے وہ نقاب ڈالے رکھتی تھیں۔ ہم ان سے کہتے کہ اللہ تعالیٰ آپ پر رحم فرما ئے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے
اور وہ عمر رسیدہ بوڑھی عورتیں جو نکاح کا کوئی ارادہ (داعیہ) نہیں رکھتیں ان پر کوئی گناہ نہیں کہ وہ اپنی چادریں اُتار لیں، اس شرط کے ساتھ کہ وہ زینت کی نمائش کرنے والی نہ ہوں۔
 
جبکہ کپڑوں سے مراد جلباب و چادر ہے، تو وہ کہا کر تی تھیں
ان الفاظ کے بعد ارشادِ الٰہی کے کیا الفاظ ہیں؟ ہم کہتے کہ آگے ہے
اگر وہ حیا داری اختیار کریں تو ان کے لیے یہی بہتر ہے۔
تو وہ فرماتیں
یہی الفاظ (بڑی عورتوں کیلئے بھی) پردے کو ثابت کرتے ہیں۔
(جاری ہے)
 

شیئر: