Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ڈراپ اِن پچز سے پاکستان کرکٹ میں کتنی بہتری آسکتی ہے؟

ڈراپ ان پچز‘  گراؤنڈ سے باہر تیار کی جاتی ہیں. (فوٹو: کرک انفو)
پاکستان کرکٹ بورڈ نے پچز کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے ’ڈراپ اِن‘ پچز منگوانے کا فیصلہ کیا ہے۔ 37 کروڑ روپے کی لاگت سے دو پچز آسٹریلیا سے منگوائی جائیں گی جو کہ لاہور کے قدافی کرکٹ اسٹیڈیم اور نیشنل کرکٹ سٹیڈیم کراچی میں استعمال ہوں گی۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کو ایک نجی کمپنی کے سپانسر کے ذریعے ڈراپ ان پچز منگوانے کے لیے معاہدہ کیا ہے۔ چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ رمیز راجہ کے مطابق ان پچز کو متعارف کروانے سے پاکستانی کھلاڑیوں کو آسٹریلین معیار کی پچز پر کھیلنے کا موقع فراہم ہوگا۔
’ڈراپ اِن پچز‘ ہیں کیا  اور کہاں کہاں استعمال کی جارہی ہیں؟ 
’ڈراپ ان پچز‘  گراؤنڈ سے باہر تیار کی جاتی ہیں اور عمومی طور پر ان کا استعمال ان گراؤنڈز میں کیا جاتا ہے جو کہ کرکٹ کے علاوہ دیگر کھیلوں کے لیے بھی استعمال ہوتے ہیں۔ 
دنیائے کرکٹ میں ڈراپ ان پچز متعارف کرنے کا سہرا کرکٹ کو نئی جہت دینے والے کیری پیکر کے ہی سر ہے جنہوں نے وائٹ بال، فیلڈنگ ریسٹرکشنز، کلر کٹ اور فلڈ لائٹس کرکٹ متعارف کروا کر کرکٹ کو ایک نیا رخ دیا تھا۔ 
 ابتدائی طور 1977 میں شروع ہونے والی کیری پیکر سیریز کے دوران ’ڈارپ اِن پچز‘ متعارف کیا۔ آسٹریلیا میں کھیلی جانے والی اس سیریز کے انعقاد کے لیے جب آسٹریلوی کرکٹ بورڈ نے اپنے ٹیسٹ وینیوز دینے سے انکار کیا تو کیری پیکر ورلڈ سیریز کا انعقاد ان میدانوں پر کیا گیا جو کہ بنیادی طور پر رگبی یا فٹبال کے لیے استعمال ہوتے تھے اور ایسے میں اس ورلڈ سیریز کے لیے گراؤنڈ سے باہر پچز تیار کروا کر ان گراؤنڈز میں نصب کی گئیں۔‘

دنیائے کرکٹ میں ڈراپ اِن پچز متعارف کرنے کا سہرا بھی جدید کرکٹ کے بانی کیری پیکر کے سر ہے ۔ (فائل فوٹو: دی آسٹریلین)

عمومی طور پر آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں موسم گرما کے دوران کرکٹ کھیلی جاتی ہے جبکہ موسم سرما میں یہ میدان فٹبال اور رگبی کے لیے استعمال ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ آسٹریلیا کے ملبورن کرکٹ گراؤنڈ اور نیوزی لینڈ میں ڈراپ اِن پچز کو استعمال کیا جاتا ہے۔  
ڈراپ اِن پچز سے پاکستان کرکٹ میں بہتری آئے گی؟ 
پاکستان کرکٹ بورڈ کے سابق ڈائریکٹر ڈومیسٹک آپریشنز ہارون الرشید نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ ڈراپ اِن پچز کا تجربہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن دیکھنا ہوگا کہ پاکستان کی آب و ہوا اور کنڈیشنز میں یہ کس حد تک کامیاب ہوسکتی ہیں۔ ‘ 
انہوں نے کہا کہ ‘ہر ملک کی مٹی کی ساخت مختلف ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہر ملک میں پچز کی کنڈیشنز مختلف ہیں، دوسرے ملک میں تیار کی گئی پچ یہاں کیا نتیجہ دے گی یہ بھی ایک چلینج ہے، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں کرکٹ گرمیوں میں ہوتی ہے اور ہمارے ہاں کرکٹ سردیوں میں ہوتی ہے تو موسم سرما کے لیے تیار کی گئی پچ کو جب ایشیئن کنڈیشنز میں استعمال کیا جائے تو وہ کتنا فرق ڈالے گا یہ دیکھنا ہوگا۔‘  
سینیئر کرکٹ تجزیہ نگار اور کرکٹ صحافی ڈاکٹر نعمان نیاز نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 2005 میں برزبن نے ڈراپ اِن پچز استعمال کرنے سے انکار کر دیا تھا کیونکہ ان کا موقف تھا کہ یہاں قدرتی طور پر ایسی مٹی پائی جاتی ہے جس سے عالمی معیار کی کرکٹ پچ تیار کی جاسکتی ہے۔  
انہوں نے کہا کہ ڈراپ اِن پچز کا فائدہ یہ ہے کہ انہیں اپنی مرضی کے مطابق تیار کیا جاسکتا ہے اور بنیادی طور پر چئیرمین پی سی بی رمیز راجہ کا بھی یہی آئیڈیا ہے کہ آسٹریلین کنڈیشنز کی طرح پاکستان میں بھی پچز ہوں تاکہ پاکستان کے بیٹرز کو بیرون ملک کھیلتے ہوئے پریشانی نہ ہو لیکن سوال تو یہ ہے کہ کیا جتنے اخراجات ان پچز پر کیے جارہے ہیں اس سے بہتر نہیں کہ ہم بیرون ملک سے عالمی معیار کی پچ بنانے والے کیوریٹرز ہائیر کریں جو کہ پاکستان میں بہتر پچز تیار کریں۔  
ڈاکٹر نعمان نیاز کے مطابق ’پاکستان میں قدرتی طور پر بہترین معیار کی پچز تیار کی جاسکتی ہیں اور ڈراپ اِن پچز منگوانے اور ان کی دیکھ بھال پر آنے والے اخراجات بہت زیادہ ہیں، ابھی تو ہمیں سپانسر مل گئے اور دو پچز منگوا لی جائیں گی لیکن طویل مدت کے لیے یہ قابل عمل نہیں ہے۔ دو ڈراپ اِن پچز پر کتنے ڈومیسٹک میچز ہوسکیں گے اور کتنے کھلاڑیوں کو ان پر کھیلنے کا موقع مل سکے گا۔؟‘ 

چیئرمین پی سی بی رمیز راجہ کے مطابق ان پچز سے پاکستانی کھلاڑیوں کو آسٹریلین معیار کی پچز پر کھیلنے کا موقع فراہم ہوگا۔ (فائل فوٹو: روئٹرز)

سابق ڈائریکٹر ڈومیسٹک آپریشنز ہارون الرشید نے بتایا کہ ‘میری خواہش اور کوشش رہی تھی کہ ہم زرعی یونیورسٹی کے گریجویٹس کو پچ تیار کرنے کی تربیت دیں کیونکہ وہ زمین کی ساخت کے بارے بہتر سمجھ بوجھ رکھتے ہیں اور وہ پاکستان میں اعلیٰ معیار کی پچز تیار کرسکتے ہیں۔‘ 
انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ‘پاکستان میں پچز کی ابتر صورتحال کی وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے ہاں پچ تیار کرنے والے مالی ہوتے ہیں انہیں پچ تیار کرنے کی تربیت تو ہوتی ہے لیکن وہ اس فیلڈ کے ماہر نہیں ہوتے، پانی ڈال کر چار گھنٹے رول کرکے پچ تیار کریں گے تو پھر معیار تو بہتر نہیں ہوسکتا۔‘  
ہارون الرشید کے مطابق ’نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا اپنے گراؤنڈز کو دیگر کھیلوں کے لیے استعمال کرتا ہے لیکن پاکستان میں تو کرکٹ کے لیے گراؤنڈز مختص ہیں اور یہاں دو پچز منگوا کر اس پر کتنی کرکٹ کھیل سکتے ہیں یہ تو سوالیہ نشان ہی ہیں۔‘ 

شیئر: