Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نئی آٹو پالیسی سے اون منی کلچر کے خاتمے کا ’زیادہ امکان نہیں‘

پاکستان نے آئندہ پانچ سال کے لیے آٹو پالیسی جاری کر دی ہے (فوٹو: فری پک)
پاکستان نے آئندہ پانچ سال کے لیے آٹو پالیسی جاری کر دی ہے۔ نئی آٹو پالیسی میں چھوٹی گاڑیوں، الیکٹرک اور ہائبرڈ گاڑیوں کو ٹیکس میں مراعات دی گئیں جبکہ ’اون منی‘ کلچر کے تدارک کے لیے بھی اقدامات کیے گئے ہیں۔ 
سنہ 2021 سے 2026 تک کے لیے منظور کی گئی آٹو پالیسی میں ’اون منی‘ کے کلچر کو ختم کرنے کے لیے گاڑی کی رجسٹریشن پر 50 ہزار روپے سے دو لاکھ روپے تک کا اضافی ٹیکس عائد کیا گیا ہے۔
اگر گاڑی کی بکنگ کسی اور شخص کے نام پر کی جاتی ہے اور ڈیلیوری کے وقت گاڑی کسی اور کے نام پر رجسٹرڈ کی جائے گی تو گاڑی کے سی سی کے حساب سے 50 ہزار روپے سے دو لاکھ روپے تک اضافی ٹیکس جمع کروانا ہوگا۔ اسی طرح گاڑی تیار کرنے والی کمپنیوں کو پابند بنایا گیا ہے کہ بکنگ کے 60 روز کے اندر گاڑی ڈیلیور کر دی جائے بصورت دیگر کمپنی صارف کو کائیبور کے ساتھ تین فیصد انٹرسٹ یومیہ حساب سے کسٹمر کو دینے کی پابند ہو گی۔  
آٹو پالیسی میں ایک ہزار سی سی سے کم گاڑیوں پر ود ہولڈنگ ٹیکس اور فیڈرل ایکسائز دیوٹی ختم کر دی گئی ہے جبکہ سیلز ٹیکس 18 فیصد سے کم کر کے 12  عشاریہ پانچ فیصد کر دیا گیا ہے۔ 
اسی طرح ایک ہزار سی سی سے دو ہزار سی سی تک کی گاڑیوں پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی پانچ فیصد سے کم کر کے ڈھائی فیصد کر دی گئی، دو ہزار سی سی سے زائد گاڑیوں پر فیڈرل ایکسائیز دیوٹی سات اعشاریہ پانچ فیصد سے کم کر کے پانچ فیصد کر دی گئی ہے۔  

کمپنیوں کو 60 روز کے اندر گاڑی کی فراہمی کا پابند بنایا گیا ہے (فوٹو: اے ایف پی)

آٹو پالیسی کے تحت الیکٹرک اور ہائبرڈ گاڑیوں پر بھی ٹیکس مراعات دی گئی ہیں۔ مقامی سطح پر تیار کردہ الیکٹرک گاڑیوں پر سیلز ٹیکس 17 سے ایک فیصد کر دیا گیا ہے جبکہ الیکٹرک گاڑیوں کے پرزہ جات پر کسٹم ڈیوٹی بھی ایک فیصد کر دی گئی ہے۔
الیکٹرک گاڑیوں کی درآمد پر کسٹم ڈیوٹی 25 فیصد کے بجائے اب 10 فیصد ادا کرنا ہو گی، جبکہ موٹرسائیکل کے الیکٹرک پرزہ جات پر ایک فیصد کسٹم ڈیوٹی ہوگی۔  
اسی طرح ہائبرڈ الیکٹرک گاڑیوں پر سیلز ٹیکس کم کرکے 8٫5 فیصد کر دیا گیا ہے جبکہ 1800 سی سی سے کم ہائبرڈ گاڑیوں کی درآمد پر ریگولیٹری ڈیوٹی ختم کر دی گئی ہے، اور 1800 سی سی سے زائد گاڑیوں کی درآمد پر 15 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی ادا کرنا ہوگی۔ 
نئی آٹو پالیسی کا اطلاق یکم جنوری سے ہوگا جبکہ مقامی سطح پر تیار کرنے والی کمپنیوں کو گاڑیوں میں حفاظتی اقدامات مکمل رکھنے کا پابند بنایا گیا ہے جس کے لیے جون 2022 میں حفاظتی اقدامات نہ ہونے والی گاڑیوں کی تیاری اور درآمد پر بھی مکمل پابندی ہوگی۔
اس حوالے سے ایک کمیٹی بھی تشکیل دی گئی ہے جو کہ صارفین کی شکایات اور گاڑیوں میں حفاظتی اقدامات کا جائزہ لے گی۔ 

ہزار سی سی سے کم گاڑیوں پر ود ہولڈنگ ٹیکس اور فیڈرل ایکسائز دیوٹی ختم کر دی گئی ہے (فوٹو: اے ایف پی)

نئی آٹو پالیسی سے اون منی کلچر کا خاتمہ ممکن ہوگا؟ 

آل پاکستان موٹر ڈیلرز ایسوی ایشن کے چئیرمین ایچ ایم شہزاد کے مطابق پاکستان میں ’اون منی‘ کا خاتمہ ممکن ہی نہیں کیونکہ انجینئیرنگ ڈویلپمنٹ بورڈ آٹو پالیسی پر عملدرآمد کرتا ہے لیکن اس بورڈ میں لوکل اسمبلرز کے زیر اثر رہنے والے لوگ موجود ہیں۔  
انہوں نے کہا کہ ’گذشتہ ایک سال میں گاڑیوں کی فروخت میں ایک کھرب روپیہ بلیک مارکیٹ کے ذریعے کمایا گیا، ماضی میں جو پالیسی بنائی گئی اس پر کس حد تک عملدرآمد کروایا گیا؟‘  
ایچ ایم شہزاد کے مطابق ’اون منی ختم کرنے کے لیے آٹو پالیسی میں جن اقدامات کا ذکر ہے ان پر عملدرآمد نہیں کیا جاتا، اب سرمایہ کاروں کے نام پر گاڑی بک ہوگی اور انہی کے نام پر رجسٹریشن کروا کر مارکیٹ میں فروخت کر دی جائے گی۔ خریدار اضافی ٹیکس سے بچنے کے لیے اپنے نام پر چھ ماہ بعد ٹرانسفر کروائے گا۔‘  
60 روز کے اندر گاڑیاں ڈیلیور کرنے کی شرط پر انہوں نے کہا کہ ‘اس سے پہلے بھی کمپنیوں کو 60 روز کے اندر گاڑیاں دینے کا پابندی بنانے کی پالیسی موجود تھی لیکن نہ کسی کو 60 روز کے اندر گاڑیاں دی گئیں نہ ہی کائیبور اور تین فیصد کا انٹرسٹ صارف کو دیا۔‘ 

ہائبرڈ الیکٹرک گاڑیوں پر سیلز ٹیکس کم کرکے آٹھ اعشاریہ پانچ فیصد کردیا گیا ہے (فوٹو: اے ایف پی)

ایچ ایم شہزاد نے اون منی کے خاتمے کے لیے تجاویز دیتے ہوئے کہا کہ ’اس کلچر کو ختم کرنے کے لیے ڈیلرز کے کوٹہ کو ختم کرنا ہوگا، لوکل اسمبلرز اپنے ڈیلرز کو سالانہ ایک ہزار سے 15 سو گاڑیاں کوٹے پر دیتا ہے اور یہی گاڑیاں اون منی پر فروخت ہوتی ہیں۔‘  
آٹو انڈسٹری پر گہری نظر رکھنے والے صحافی بلال حسین نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’نئی آٹو پالیسی سے اون منی کلچر کا فوری طور پر خاتمہ کا کوئی امکان نہیں تاہم طویل مدتی پالیسی کے طور پر اس میں کمی کا امکان ضرور ہے۔‘  
انہوں نے کہا کہ ’کورونا وائرس کی وجہ سے بیشتر گاڑیوں کے پارٹس کی درآمد میں مشکلات ہیں اور گاڑیاں کسٹمرز کو ڈیلیور نہیں ہو پا رہیں، اگر پارٹس کی درآمد میں رکاوٹ دور ہو جائے تو مارکیٹ میں مقابلے کی فضا قائم ہوسکتی ہے اور نئی کمپنیوں کے آنے سے مقامی اسمبلرز گاڑیاں وقت پر ڈیلیور کرنے کو ترجیح دیں گے کیونکہ خریدار بھی ان گاڑیوں کی خریداری میں زیادہ دلچسپی دکھائیں گے جن کی ڈیلیوری کی مدت کم ہو۔‘  

شیئر: