Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان میں لاکھوں ٹن غذا کے ضیاع کے باوجود قانون سازی کا فقدان

ایک سروے کے مطابق پاکستان میں سالانہ 36 ملین ٹن خوراک ضائع ہوتی ہے۔ فوٹو روئٹرز
اگر آپ کسی دیہات کے رہنے والے ہیں یا کبھی دیہی زندگی سے تعلق رہا ہے تو آپ نے دیکھا ہوگا کہ گندم کی کٹائی کے موسم میں جب کھیت سے گندم اٹھا لی جاتی تھی تو عورتیں کھیت میں ٹوٹ کے گر جانے والی گندم کی بالیوں کو چننا شروع کر دیتی تھیں۔ اس عمل کو پنجابی زبان میں ’وڈ چننا‘ کہا جاتا تھا۔ 
یہ بالیاں اکٹھا کرنے کا مقصد کھیت میں رہ جانے والے دانے سمیٹنا ہوتا تھا کہ رزق کا ضیاع نہ ہو۔ یہ محض ایک کوشش ہی نہیں ہوتی تھی بلکہ عورتیں پانچ سات ایکڑ سے اتنی بالیاں چن لیتی تھیں کہ مجموعی پیداوار میں ایک دو بوری کا اضافہ ممکن ہو جاتا تھا۔ 
دیہاتوں میں رزق اور خوراک کے ضیاع کا تصور اتنا تھا کہ رات کے کھانے سے بچ جانے والی روٹیاں ضائع کرنے کے بجائے بلا جھجھک صبح کے ناشتے میں استعمال ہو جاتی تھیں۔
اس سے کسی کی شان و شوکت یا سٹیٹس پر بھی فرق نہیں پڑتا تھا۔ بلکہ یوں کہیے کہ اپنی زندگی دیہات میں گزارنے والوں کی بڑی تعداد رات کی بچی ہوئی تندور کی روٹی، تازہ مکھن اور لسی کا ناشتہ ان کی یادوں کا حصہ ہوتا ہے۔ 
وقت بدلا، کٹائی کے لیے جدید مشینری آگئی اور انسانی سہل پسندی کی وجہ سے ٹوٹی ہوئی بالیاں چننے کی روایت بھی ختم ہو گئی اور رات کی باسی روٹیاں کھانے کو بھی تضحیک سمجھا جانے لگا۔
رات کے کھانے سے بچ جانے والی روٹیاں جانوروں کے چارے کا حصہ بننے لگیں۔ یہ اگرچہ اس طرح سے ضیاع تو نہیں ہے لیکن اس کی کھپت کا طریقہ بدل گیا ہے۔
شہروں میں اگرچہ رزق کی فراوانی ہوتی ہے اور ایک زمانے میں اصراف اور رزو کے ضیاع کو بھی ملحوظ خاطر رکھا جاتا تھا لیکن بدلتے وقت نے یہاں پر بھی اپنے اثرات دکھائے۔ جدید شہری زندگی میں ہوٹلوں میں نت نئے پکوان بننے لگے اور لوگوں کی طرف سے بھی بیک وقت انواع و اقسام کی ڈشز کا آرڈر ہونے لگا۔ لوگ دیکھا دیکھی میں بیک وقت کئی ایک کھانے منگواتے ہیں اور پھر کھائے نہیں جاتے اور بچ جانے والا کھانا عموماً ضائع ہو جاتا ہے۔

ہوٹلوں میں بڑی مقدار میں کھانا ضائع جاتا ہے۔ فوٹو روئٹرز

شادی بیاہ کے موقع پر گھروں میں کھانا پکانے کا رجحان بھی ختم ہوا اور بڑے بڑے ہوٹلوں میں بارات ولیمے اور پارٹیاں کی جانے لگیں۔ اس سے بھی رزق کا ضیاع بڑھنے لگا۔ 
اس حوالے سے شعور پیدا ہوا تو نجی سطح پر بچ جانے والے کھانے کو مستحقین میں تقسیم کا محدود سلسلہ شروع ہوا۔ تاہم سرکاری سطح پر بالخصوص وفاق کی سطح پر اس حوالے سے نہ تو کوئی قانون سازی کی گئی اور نہ ہی کسی قسم کے اقدامات اٹھائے گئے ہیں۔ ہوٹلوں پر خوراک کے ضیاع سے متعلق ہدایات محض کاغذی یا رسمی کارراوائی ہی ثابت ہوئی ہیں۔
وزارت غذائی تحفظ کے حکام نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’اگرچہ یونیورسٹیوں اور این جی اوز کی سطح پر کئی ایک سروے کرائے گئے ہیں جس سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ پاکستان میں غذائی پیداوار کے تناسب سے بہت سارا خوراک ضائع ہوتا ہے۔ تاہم اس حوالے سے کوئی حتمی ڈیٹا موجود نہیں ہے۔‘
پائیڈ کے ایک سروے کے مطابق پاکستان میں شادی بیاہ، تقریبات اور پارٹیوں اور ہوٹلوں میں سالانہ 36 ملین ٹن خوراک ضائع ہوتی ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ ’ہوٹلوں وغیرہ میں خوراک کے ضیاع سے متعلق تو وزارت کے پاس کوئی مینڈیٹ نہیں تاہم وزارت اس سلسلے میں کام کرنے والوں کی معاونت ضرور کرتی ہے بالخصوص کٹائی کے موسم میں فصل کے ضیاع سے متعلق ہدایات اور طریقہ کار کے بارے میں آگاہی ضرور فراہم کی جاتی ہے۔‘ 
نیشنل ایگری کلچر ریسرچ کونسل (این اے آر سی) نے بھی خوراک کے ضیاع کو سنجیدہ مسئلہ قرار دیا ہے اور اس مقصد کے لیے گندم چاول اور دیگر فصلوں کی کٹائی کے ساتھ ساتھ مختلف پھل توڑنے، ان کی پیکنگ اور ٹرانسپورٹیشن سے متعلق ایس او پیز تیار کیے ہیں۔ 

درست طریقہ کار نہ اپنانے کے باعث بھی اجناس کا ضیاع بڑھ رہا ہے۔ فوٹو اے ایف پی

ڈی جی این اے آر سی غلام علی نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’پوسٹ ہارویسٹنگ نقصانات‘ یعنی فصل کی کٹائی کے بعد غلے کے ضیاع کی شرح میں گزشتہ کچھ عرصے میں بہت اضافہ ہوا۔
’کھیت سے منڈی، منڈی سے گودام اور گودام سے ملوں تک کے سفر میں مناسب اقدامات نہ ہونے کی وجہ سے بہت سا غلہ ضائع ہوتا ہے جو ہماری پیداوار کے تناسب کو سامنے رکھا جائے تو بہت زیادہ ہے۔ اسے کم سے کم کرنے کے لیے بہت سے اقدامات تجویز کیے جاتے ہیں جیسے بوریوں کے ساتھ کنڈے کا استعمال، منڈیوں میں غلے کے ڈھیر نہ لگانے جیسے اقدامات اہم ہیں۔‘ 
انھوں نے کہا کہ ’غلے کے علاوہ پھل بھی بہت زیادہ مقدار میں صرف اس لیے ضائع ہو جاتے ہیں کہ انھیں توڑنے کا درست طریقہ کار نہیں اپنایا جاتا، اس کے بعد پینگ اور ایک شہر سے دوسرے شہر اور منڈیوں سے بازاروں اور ریڑھیوں کا سفر اگر اس کا تخمینہ لگایا جائے تو ضائع ہونے والے فروٹ کی شرح بہت زیادہ ہوتی ہے۔‘ 
ڈی جی این اے آر سی غلام علی نے بتایا کہ ’درخت سے پھل زمین پر گرنے، پھلوں کے دانے ایک دوسرے سے ٹکرانے اور درجہ حرارت زیادہ ہونے کی وجہ سے بھی بہت سے پھل گل سڑ جاتے ہیں اور کھانے کے قابل نہیں رہتے۔ اس سب کو روکنے کے لیے ہم نے مکمل ایس او پیز متعارف کرائے ہیں جن کے بارے میں کسانوں اور فروٹ مرچنٹس کو آگاہ کرتے رہتے ہیں لیکن عمل در آمد نہیں ہو رہا۔‘ 
خیال رہے کہ پاکستان میں صوبہ پنجاب واحد صوبہ ہے جہاں سرکاری سطح پر ہوٹلوں اور تقریبات میں بچ جانے والے کھانے کو ضائع ہونے سے بچانے کے لیے پنجاب فوڈ اتھارٹی نے ریگولیشنز متعارف کرائے ہیں جس کو ڈسپوزل آف ایکسیس فوڈ 2019 کا نام دیا گیا ہے اور انھیں وزیر اعظم کے احساس پروگرام کے ساتھ منسلک کیا گیا ہے۔

کھانے کو ضائع ہونے سے بچانے کے لیے حکومت نے ضابطے متعارف کیے ہیں۔ فوٹو اے ایف پی

اس پروگرام کے تحت ہوٹل، کھانے پینے کی اشیا تیار کرنے والے کارخانے اور ٹرانسپورٹرز کو اضافی خوراک عطیہ کرنے کا کہا گیا ہے۔ عطیہ کے طور پر ملنے والی اشیائے خورد و نوش سے تیار ہونے والا کھانا مستحق افراد میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ اس عمل کے دوران حفظان صحت کے اصولوں کو بھی مد نظر رکھا جاتا ہے۔ 

شیئر: