حکمران جماعت تحریک انصاف سابق وزیراعظم نواز شریف کو لندن سے واپس لانے کے لیے پوری طرح متحرک نظر آرہی ہے۔
ایک طرف تو نواز شریف کی صحت سے متعلق لندن سے آنے والی رپورٹس جانچ پڑتال کے لیے ایک میڈیکل بورڈ تشکیل دے رکھا ہے تو دوسری طرف اٹارنی جنرل آفس نے نواز شریف کی ضمانت دینے والے ان کے بھائی اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کو ایک خط لکھا ہے کہ اپنے بھائی کو واپس لانے والے اس حلف نامے پر عمل کریں جو انہوں نے عدالت کے روبرو جمع کروا رکھا ہے۔
اٹارنی جنرل آفس کی جانب سے لکھے جانے والے خط میں کہا گیا ہے کہ ’نواز شریف کی سیاسی، سماجی اور تفریحی سرگرمیاں جو میڈیا کی زینت بنی رہتی ہیں اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ اب بالکل ٹھیک ہیں، لہٰذا آپ اپنا وعدہ پورا کرتے ہوئے اب انہیں واپس لائیں۔‘
مزید پڑھیں
-
ڈیل نہیں انصاف ہو رہا ہےNode ID: 635386
-
اپوزیشن چاہتی ہے 'جو ہاتھ عمران کے سر پر ہے وہ ان پر رکھا جائے'Node ID: 635526
-
’پی ڈی ایم سے زیادہ حکومت کو خود گرنے کی جلدی ہے‘Node ID: 636466
اس حکومتی خط کے بعد قانونی حلقوں میں ایک نئی بحث نے جنم لیا ہے کہ اگر واقعی حکومت نواز شریف کو واپس لانا چاہتی ہے تو کیا یہی طریقہ کار ہے جو اپنایا جا رہا ہے یا پھر حکومت اس معاملے کو میڈیا اور عوامی منظر نامے پر ہی ڈیل کرنا چاہتی ہے؟
شہباز شریف اور نواز شریف کی جانب سے عدالت میں جمع کروائے گئے دو الگ الگ حلف ناموں کا جائزہ لیا جائے تو ان کی عبارت تقریباً ایک جیسی ہے۔
اردو نیوز کو دستیاب شہباز شریف کے حلف نامے کے مطابق ’میں محمد شہباز شریف اس بات کا حلف دیتا ہوں کہ میں اپنے بھائی محمد نواز شریف کی واپسی کو یقینی بناؤں گا۔ چار ہفتوں کے اندر یا جب ڈاکٹر اس کی اجازت دیں۔‘
اس حلف نامے میں یہ عبارت بھی شامل ہے کہ ’اگر وفاقی حکومت کے پاس مصدقہ معلومات ہیں کہ محمد نواز شریف سفر کے قابل ہونے کے باوجود پاکستان واپس نہیں آرہے تو پاکستان ہائی کمیشن کا نمائندہ ان کے ڈاکٹر سے مل کر ان کی صحت سے متعلق تصدیق کر سکتا ہے۔‘

اسی طرح نواز شریف کے حلف نامے میں یہ کہا گیا ہے کہ ’میں ماضی کی طرح ملک واپس آکر مقدمات کا سامنا کروں گا۔ چار ہفتوں کے اندر یا جب ڈاکٹر اجازت دیں میں اپنے بھائی محمد شہباز شریف کے حلف نامے پر عمل کرنے کا پابند ہوں۔‘
خیال رہے کہ یہ دونوں حلف نامے 16 نومبر 2019 کو پچاس، پچاس روپے کے سٹامپ پیپرز پر لاہور ہائی کورٹ میں جمع کروائے گئے تھے۔ جس دن حلف نامہ جمع کروایا گیا اسی دن باہر جانے کی اجازت ملی اور 20 نومبر کو نواز شریف بیرون ملک روانہ ہو گئے تھے اور تاحال لندن میں مقیم ہیں۔
اسی حلف نامے پر عمل درآمد کروانے کے لیے اٹارنی جنرل نے شہباز شریف کو خط لکھا ہے تاہم قانونی ماہرین یہ سمجھتے ہیں کہ یہ سرگرمی غیر ضروری ہے۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق سیکریٹری آفتاب باجوہ نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایک عدالتی معاملے کو اٹارنی جنرل نے ذاتی معاملے میں تبدیل کر دیا ہے۔
’اگر حکومت واقعی نواز شریف کو لانے میں سنجیدہ ہے تو سیدھی سیدھی ایک ضمنی درخواست اسی عدالت میں داخل کی جانی چاہیے جس نے نواز شریف کو باہر جانے کی اجازت دی تھی۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ حکومت کو خدشہ ہو سکتا ہے کہ اس سے معاملہ لٹکا رہے گا۔ کیونکہ لامحالہ عدالت شہباز شریف کو نوٹس کرے گی پھر نواز شریف کی رپورٹس آئیں گی اور اس حلف نامے میں ایک شق کے مطابق ڈاکٹروں کی اجازت ہونا بھی ضروری ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’حکومت کو کسی جلد ریلیف کی توقع نہیں ہے اس لیے شاید وہ چاہتے ہیں کہ کم از کم اپنا سیاسی بیانیہ تو جاری رکھیں۔‘
