جس طرح ستارہ روشنی فراہم کرتا ہے ویسے ہی صحابہ کرامؓ کی زندگی سے روشنی حاصل کی جاسکتی ہے جس پر چلنے والا کبھی گمراہ نہیں ہوسکتا
مفتی تنظیم عالم قاسمی ۔حیدرآباد دکن
اللہ تعالیٰ نے انبیائے کرام کے بعد صحابۂ کرام کو سارے عالم پر فضیلت دی ہے،اس لئے کہ وہ درسگاہِ نبوت کے راست فیض یافتہ تھے ۔انہوں نے رسول اکرم کے شب و روز کو اپنی نظروں سے دیکھا اور آپ کی تعلیمات پر عمل کیا اور آپنے ان کی صداقت و دیانت اور پختہ ایمانی کی شہادت دی ۔قرآن کریم نے بھی جگہ جگہ ان کی کامیابی اور ان کے راہِ حق پر ہونے کا اعلان کیا اور ان کو اپنی رضا مندی کی خوشخبری سنائی‘ اس لئے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنی محبوبیت اور آخری رسالت کیلئے رسول اکرم کا انتخاب کیا ویسے ہی آپسے کسب فیض کرکے پوری دنیا کو فیضیاب کرنے کے لئے صحابۂ کرام کو منتخب کیا ۔ظاہر ہے کہ جن کا انتخاب قدرت کی جانب سے ہو ان کے تقدس میں کیا شبہ ہوسکتا ہے،اسی لئے رسول اکرم نے ان کو ساری امت کے لئے دین کے ہر گوشے میں نمونہ قرار دیا ۔جس طرح ستارہ روشنی فراہم کرتا ہے ویسے ہی ان نفوسِ قدسیہ کی زندگی سے بھی روشنی حاصل کی جاسکتی ہے جس پر چلنے والا کبھی گمراہ نہیں ہوسکتا۔اگر کسی نے ان کے علاوہ اور کوئی راستہ ڈھونڈا تو اس کا سِرا جنت تک نہیں پہنچ سکتا ،اس لئے ہم پر لازم ہے کہ ہر معاملے میں صحابۂ کرام کی زندگی کا مطالعہ کریں اور اس سے رہنمائی حاصل کریں۔ رسول اکرمسے محبت ایمان کی بنیاد ہے ،اس لئے صحابۂ کرام نے ذات ِ رسالت سے بے پناہ محبت کی جس کی مثال تاریخِ انسانیت میں نہیں ملتی ۔صرف عمل اور اتباع ہی نہیں بلکہ اپنی جان تک نچھاور کرنے کے لئے وہ تیار رہتے تھے، نمونے کے طور پر چند نمونے پیش خدمت ہیں تاکہ ہم اپنی زندگی میں سبق حاصل کریں۔
٭ حضرت زید بن دثنہؓ کو چند ساتھیوں کے ساتھ کفار مکہ نے گرفتار کرلیا تھا۔ صفوان بن امیہ نے جس کا باپ امیہ بن خلف بدر میں مارا گیا تھا، حضرت زید کو اپنے باپ کے عوض میں قتل کرنے کے لئے خریدا کہ انہیں قتل کر کے دل کو یہ کہتے ہوئے تسلی دی جاسکے کہ میرے باپ کو اگر مسلمانوں نے قتل کیا ہے تو میں نے بھی اپنے باپ کی جان کے بدلے ایک مسلمان کی جان لی ہے۔بہرحال صفوان بن امیہ نے حضرت زید بن دثنہؓ کو خرید کر بلا کسی تاخیر کے اپنے غلام نسطاس کے ساتھ حرم سے باہر تنعیم میں قتل کرنے کے لئے بھیج دیا اور قتل کا تماشا دیکھنے کے لئے قریش کی ایک جماعت تنعیم میں جمع ہوگئی، جن میں ابوسفیان بھی تھا۔ جب حضرت زید کو قتل کے لئے سامنے لایا گیا تو ابوسفیان نے ان سے مخاطب کرتے ہوئے کہا: اے زید! میں تم کو خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا تم اس کو پسند کروگے کہ ہم تم کو چھوڑ دیںاور محمد () کو تمہارے بدلے میں قتل کردیں، اور تم اپنے گھر آرام سے رہو، حضرت زیدؓ نے جھنجھلاتے ہوئے فرمایا: ’’اللہ کی قسم مجھے یہ بھی گوارا نہیں کہ حضور اقدس جہاں ہیں وہیں ان کے مبارک پیر میں ایک کانٹا بھی چبھے اورمیں اپنے گھر میں بیٹھا رہوں۔‘‘ یہ جواب سن کر ابوسفیان نے کہا: خداکی قسم میںنے کسی کو کسی کا اس درجہ محب، مخلص اور دوست و جان نثار نہیں دیکھا، جتنا محمد() کے ساتھی ان کے جان نثار اور چاہنے والے ہیں۔
٭ قریش نے زید ابن دثنہؓ کے دوسرے ساتھی حضرت خبیب بن عدی کو پھانسی دیتے وقت تختہ دار پر چڑھایا تو یہی سوال ان سے بھی کیا گیا:کیا تم گوارا کرو گے کہ محمد ()تمہاری جگہ تختہ دار پر ہوں؟ وہ بولے: ’’ربِ عظیم کی قسم! مجھے یہ بھی گوارا نہیں میری جگہ محمد کے قدم مبارک میں کوئی کانٹا بھی لگے، اور میری جان کی حفاظت کے بدلے محمد () کو اتنی بھی تکلیف پہنچے جتنی تکلیف ایک کانٹا چبھنے میں کسی کو ہوتی ہے، قریش یہ جواب سن کر دنگ رہ گئے (البدایہ و النہایہ)۔
٭ صحابہ کرام کے جان نثارانہ جذبات کا ظہور سب سے زیادہ غزوئہ احد میں ہوا۔ صحیح مسلم میں حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ جب قریش کا آپ پر ہجوم ہوا تو ارشاد فرمایا: کون ہے جو ان کو مجھ سے ہٹائے اور جنت میں میرا رفیق بنے۔ قبیلہ انصار کے7 افراد اس وقت آپ کے پاس موجو دتھے، ساتوں انصاری باری باری لڑ کر شہید ہوگئے۔ زیاد بن سکنؓ کو یہ شرف حاصل ہوا کہ جب یہ زخم کھاکر گرے تو نبی اکرم نے فرمایا: ان کو میرے قریب لائو، لوگوں نے ان کو آپ کے قریب کردیا، انہوں نے اپنا رخسار آپکے قدم مبارک پر رکھ دیا اور اسی حالت میں جان اللہ کے حوالے کردی۔ ان کی قسمت اور سعادت کا کیا کہنا جن کی روح رسول اللہکے مبارک قدم پر پرواز کی ہو۔جنت ان کے استقبال کے لئے انتظار کر رہی تھی۔یہ محبت اور تڑپ جس کو حاصل ہوگئی وہ شحص دنیا و آخرت میںکامیاب ہوگیا۔
٭ جنگ احد کے دن دشمنوں کے حملے میں چہرئہ انور میں زرہ کی 2 کڑیاں چبھ گئی تھیں، جن کو سیدناابوعبیدہ بن الجراحؓ نے اپنے دانتوں سے پکڑ کر کھینچا جس سے ان کے2 دانت شہید ہوگئے۔اس دن آپ کے جسم مبارک پر چونکہ 2 آہنی زرہوں کا بوجھ تھا، اس لئے آنحضرت ایک گڑھے میں گر گئے۔حضرت علیؓ نے آپ کا ہاتھ پکڑا اور حضرت طلحہ ؓ نے کمر تھام کر سہارا دیا، تب آپ کھڑے ہوئے اور ارشاد فرمایا: ’’جو شخص زمین پرچلتے پھرتے زندہ شہید کو دیکھنا چاہے وہ طلحہ کو دیکھ لے۔‘‘ یعنی شہادت کا درجہ ان کو حاصل ہوگیا۔ ایک موقع پر جب آپ ایک ٹیلے پر چڑھنا چاہ رہے تھے مگر نقاہت کی وجہ سے نہیں چڑھ سکے تو فوری حضرت طلحہ ؓ نیچے بیٹھ گئے۔ آپ ان پر پیر رکھ کر اوپر چڑھے۔ حضرت زبیرؓکے بیان کے مطابق آپ کی زبان مبارک پر یہ الفاظ جاری تھے: ’’اوجب طلحۃ‘‘ ، ’’طلحہ نے اپنے لئے جنت واجب کرلی۔‘‘ یہی طلحہ ہیں جن کا ہاتھ رسول اللہ کو کفار کے تیروں سے بچانے میں شل ہوگیا تھا۔ ایک روایت میں ہے کہ35 یا 39زخم ان کو احد کے دن لگے تھے۔جس موقع پر ہر طرف سے کفار آپ پر ٹوٹ پڑے تھے، حضرت طلحہ آپ کے لئے سپر بن گئے تھے۔ جب آپ نظر اٹھاکر دیکھنا چاہتے تو عرض کرتے: میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں، آپ نظرنہ اٹھائیں، کہیں دشمنوں کی کوئی تیر نہ آلگے، میرا سینہ آپ کے مبارک سینے کے لئے سپر ہے۔‘‘ (سیرۃ المصطفیٰ )۔
٭ رسول اکرم کے وصال کے بعد صحابۂ کرام کو جب بھی آپ کی مجلسیں یاد آتیں تو بے اختیار رو پڑتے۔ ایک بار حضرت ابوبکر ؓ اور حضرت عباس ؓ انصار کی ایک مجلس میں گئے تو دیکھا کہ سب لوگ رو رہے ہیں۔ سبب پوچھاتو بولے کہ ہم کو رسول اللہ کی مجلس یاد آگئی۔ بعض شارحین نے لکھا ہے کہ یہ واقعہ آپ کے مرض موت کا ہے، جس میں انصار کو یہ خوف پیدا ہوگیا تھا کہ اگر اس مرض میں آپ کا وصال ہوا تو پھر آپ کی مجلس میسر نہ ہوگی اس لئے وہ اس غم میں رو پڑے۔
٭ حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ جب بھی رسول اللہ کا تذکرہ فرماتے تو آنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے تھے ۔ایک مرتبہ حضرت ابوہریرہ ؓ کے سامنے چپاتیاں رکھی گئیں تو دیکھ کر یہ خیال کرتے ہوئے روپڑے کہ رسول اللہنے اپنی مبارک زندگی میں اپنی آنکھوں سے چپاتی کبھی نہیں دیکھی اور ہم ناز و نعمت میں پڑے ہوئے ہیں۔ ایک دن حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ اپنے دوستوں کو گوشت روٹی کھلایا تو رو پڑے اور کہا کہ رسول اللہ کا وصال ہوگیا اور آپ نے پیٹ بھر جو کی روٹی کبھی نہیں کھائی (اسوۂ صحابہ) اس طرح کے متعدد واقعات ہیں جن سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ صحابۂ کرام جس قدر ذات رسالت کے شیدائی تھے اس کا آج کی دنیا میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا اسی لئے تو عروہ بن مسعود ثقفی جو صلح حدیبیہ (۶ھ) کے موقع پر کفار مکہ کا ایلچی بن کر آیا تھا۔ صحابہ کرام کے عشق و محبت کو دیکھ کر دنگ رہ گیا۔
اس نے واپس جاکر جو نقشہ کھینچا اس سے صحابہ کی محبتِ رسول کا اندازہ لگائیے۔اس نے کہا:لوگو! بہ خدا میں شاہان عالم، قیصر و کسریٰ اور نجاشی کے پاس بھی گیا ہوں لیکن کسی بادشاہ کے درباری اس کی اس قدر تعظیم نہیں کرتے جتنی محمد() کے ساتھی محمد() کی تعظیم کرتے ہیں، خدا کی قسم جب بھی وہ تھوکتے ہیں ان کا لعاب کسی کے ہاتھ پڑتا ہے جو اس کو اپنے چہرے اورجسم پر مل لیتا ہے، اگر وہ کوئی حکم دیں تو اس کی تعمیل کے لئے دوڑ پڑتے ہیں، اگر وہ وضو کرتے ہیں تو وضو کا پانی لینے کے لئے ایسا لگتا ہے کہ وہ لڑ پڑیں گے، جب وہ بات کرتے ہیں تو سب اپنی آواز پست کر لیتے ہیں اور احترام کی وجہ سے انہیں نظر بھر نہیں دیکھتے۔‘‘ (زاد المعاد )۔ آج مسلمانوں کے عشق رسول کا مطلب ہے کہ آپکے طریقے کو اختیار کریں، آپ کے اقوال و افعال کی پیروی کریں۔جن امور سے آپ نے منع فرما دیا ہے ان سے کوسوں دور رہیں، تمام راہوں اور طریقوں پر اللہ کے رسول کو ترجیح دی جائے۔ ایک مسلمان کو تڑپ ہونی چاہیے کہ وہ جو کام بھی کرے شریعت کے دائرے میں ہو ۔یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ زبان سے ہم کلمہ پڑھتے ہیں مگر ہماری زندگی دشمنان اسلام کے طرز پر گزر رہی ہے ۔معاشرتی ‘اقتصادی ‘سیاسی ‘انفرادی اور اجتماعی ہر اعتبار سے ہم نے دوسروں کو اپنا نمونہ بنایا ہے ۔ہمارے بچے اور نوجوان رسول اکرم کے مبارک خاندان سے بھی واقف نہیں ۔ان کو یہ نہیں معلوم کہ آپکے والد اور دادا کا نام کیا تھا ۔آپ کی والدہ اور دادی کون تھیں ‘آپ کو کتنے چچا اور پھوپھیاں تھیں ‘ازواج مطہرات کتنے تھے اور ان کے اسمائے گرامی کیا ہیں۔آپ کو کتنی اولاد ہویں اور کن کے کیا حالات ہیں ۔یہ اور طرح کی چیزوں کا جاننا بھی عشق رسول کا ایک اہم حصہ ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم خود سیرت ِ رسول کا مطالعہ کریں ‘ اپنی زندگی کوآپ کی تعلیمات سے روشن کریں اور اپنی اولاد کو بھی اس کی تلقین کریں کہ یہی محبتِ رسول کا تقاضا ہے ۔ ٭٭٭٭