Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پیش گوئی سن لیں، گیلانی استعفیٰ واپس لیں گے: شاہ محمود قریشی

شاہ محمود قریشی کی تقریر میں گیلانی کے حوالے سے سخت الفاظ چیئرمین سینیٹ نے حذف کرا دیے۔ فائل فوٹو: سینیٹ آْف پاکستان ٹوئٹر
سینیٹ میں منگل کو بھی اپوزیشن لیڈر یوسف رضا گیلانی کے استعفے کی گونج سنائی دیتی رہی اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی جانب سے ان کے استعفے کو ڈرامہ قرار دینے پر ہنگامہ آرائی بھی دیکھنے میں آئی۔
یاد رہے کہ پیر کو سینیٹ میں قائد حزب اختلاف یوسف رضا گیلانی نے اپنا استعفیٰ پارٹی کو جمع کروانے کا اعلان کیا تھا۔ وہ گزشتہ جمعے کو سٹیٹ بینک کی خودمختاری کے بل پر سینیٹ میں اپوزیشن کی عددی اکثریت کے باوجود شکست اور اپنی غیر حاضری کی وجہ سے تنقید کا سامنا کر رہے ہیں۔
دوسری جانب یوسف رضا گیلانی نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ  ’میں ملک کے وزیر خارجہ سے توقع نہیں کر رہا تھا کہ وہ اس پست سطح تک آئیں گے۔ دوسرا یہ کہ یہ سینیٹ کی توہین ہے۔‘
منگل کو اجلاس میں وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے سخت الفاظ استعمال کرتے ہوئے اپنے علاقے ملتان سے تعلق رکھنے والے یوسف رضا گیلانی کو آڑے ہاتھوں لیا جس پر اپوزیشن کی جانب سے شدید ہنگامہ آرائی بھی دیکھنے میں آئی۔ شاہ محمود قریشی کے چند الفاظ کو چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے کارروائی سے حذف بھی کرا دیا۔
اپنی تقریر میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ سٹیٹ بینک کو خودمختار بنانا معاشی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ یہ پہلی بار نہیں ہوا بلکہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی گزشتہ حکومتوں نے بھی متعدد ترامیم کی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس بل سے حکومت کی نیت ہے کہ سٹیٹ بینک کو آزاد اور خودمختار بنایا جائے اور وہ کسی حکومتی اثر میں نہ ہو۔ تاہم انہوں نے واضح کیا کہ نئے قانون کے تحت بھی سٹیٹ بینک کے بورڈ آف گورنرز کے ارکان کی تعیناتی کا اختیار وزیراعظم اور کابینہ کو ہی ہوگا۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ یہ ادارہ پہلے بھی پارلیمنٹ کے تابع تھا اور اب بھی رہے گا۔ سٹیٹ بینک کی رپورٹس یہاں آتی رہیں گی اور پارلیمنٹ کی تجاویز پر غور ہوتا رہے گا۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ سوموار کے اجلاس میں قائد حزب اختلاف نے چیئرمین سینیٹ کو بل کے حق میں ووٹ دینے پر بلاجواز تنقید کا نشانہ بنایا۔
’شاید قائد حزب اختلاف نے قواعد کا مطالعہ نہیں کیا کہ چیئرمین سینیٹ کو ووٹ کا حق حاصل ہے۔‘
اس کے بعد وزیرخارجہ نے یوسف رضا گیلانی پر تنقید کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ قائد حزب اختلاف نے اپنی غیر حاضری کی وضاحتیں پیش کیں مگر پورا پاکستان اور اپوزیشن کے حلقے ان کی وضاحتوں سے مطمئن نہیں۔
’کیا ان کے علم میں نہیں تھا کہ بل قومی اسمبلی میں پیش ہوا اور ان کی جماعت نے وہاں ایک موقف اختیار کیا اور ہنگامہ آرائی بھی کی۔ کیا یہ اتنے معصوم اور لاعلم تھے کہ ان کو پتا نہیں تھا کہ آئی ایم ایف بورڈ کی میٹنگ ہونی تھی اور اس سے قبل یہ بل سینیٹ سے پاس ہونا تھا؟‘

سینیٹ کے چیئرمین سٹیٹ بینک ترمیمی بل کے حق میں ووٹ دیا تھا۔ فائل فوٹو: سینیٹ آف پاکستان 

انہوں نے کہا کہ ’یہ کہتے ہیں کہ انہیں چئیرمین سینیٹ کی طرف سے بروقت اطلاع نہیں دی گئی جبکہ حقیقت یہ ہے کہ آپ کا دفتر سینیٹر دلاور حسین کو اور آزاد سینیٹرز کو دعوت دیتے ہیں اور خود غائب ہو جاتے ہیں۔ یہ عقدہ حل نہیں ہو رہا۔ پوری قوم حیران ہے کہ ماجرا کیا ہے۔‘
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ’کل سنیٹر دلاور نے بتایا کہ انہوں نے مجھے بلایا مگر خود غائب تھے اور ان کے دفتر گیا تو کوئی بھی نہیں تھا میں کس سے مشورہ کرتا؟ ‘ شاہ محمود قریشی کی جانب سے مسلسل اپوزیشن کو دیکھ کر فقرے کسنے پر اپوزیشن ارکان اپنی نشستوں پر کھڑے ہو گئے اور ایوان میں شور شرابہ شروع ہو گیا۔
شاہ محمود قریشی نے اس موقع پر کہا کہ ’میں آپ کا شکریہ ادا کرنے کے لیے آپ کی طرف دیکھ رہا ہوں ذرا نظر تو ملائیں، میرے دیکھنے سے آپ کو کیوں مسئلہ ہو رہا ہے؟ اگر میرے دیکھنے سے مسئلہ ہے تو میں پردہ کر لیتا ہوں میں نہیں دیکھتا۔‘
اس موقع پر چیئرمین ارکان کو بٹھاتے رہے اور وزیرخارجہ سے کہتے رہے کہ وہ اپوزیشن کے بجائے چئیر کی طرف مخاطب ہوں۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ’سینیٹر دلاور کا بیان ہے کہ مجھے شبلی فراز مل گئے، اعظم سواتی صاحب مل گئے اور مجھے موقف پیش کیا اور دلائل دیے۔ میں ان کے دلائل سے قائل ہو گیا اور ہم نے اپنے آزاد تشخص کا استعمال کرتے ہوئے اپنے ووٹ کا استعمال کر دیا۔‘
انہوں نے پوچھا کہ کیا یہ ایوان اس بات سے نا آشنا ہے کہ موجودہ قائد حزب اختلاف ووٹ خرید کر منتخب ہوئے۔ کیا الیکشن کمیشن میں ان کا کیس نہیں چل رہا۔ ان کے صاحبزادے کی ویڈیوز میڈیا میں چلتی رہیں جس میں ووٹوں کی بولی لگاتے رہے۔
انہوں نے کہا کہ  قائد حزب اختلاف نے مسلم لیگ ن کے ساتھ ہاتھ کیا ہے اور پہلے ان کا قائد حزب اختلاف بنانے کا وعدہ کیا پھر راتوں رات مکر گئے۔

چیئرمین ارکان کو بٹھاتے رہے اور وزیرخارجہ سے کہتے رہے کہ وہ اپوزیشن کے بجائے چیئرمین کی طرف مخاطب ہوں۔ فائل فوٹو: سینیٹ آف پاکستان

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ’مسلم لیگ ن کے ساتھ ہاتھ ہوا۔ ان کے ساتھ جمعے کو بھی ہاتھ ہوا اور آئندہ بھی ہاتھ ہونے والا ہے میں پیش گوئی کر رہا ہوں۔‘
’میری پیش گوئی سن لیں۔۔یہ استعفی واپس لیں گے یہ کرسی سے چپکے رہیں گے یہ اپوزیشن لیڈر بنے رہیں گے۔ ہاتھی کے دانت دکھانے کے اور ہیں چبانے کے اور ہیں۔ میں سینیٹ کے ارکان کو کہنا چاہتا ہوں کہ لیڈر آف اپوزیشن کمپرومائزڈ ہو چکے ہیں۔‘
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ کیا اپوزیشن کو رضا ربانی جیسا منجھا ہوا پارلیمینٹیرین دکھائی نہیں دیتا ان کو شیری رحمان نظر نہیں آتیں؟
اس دوران ان کے تقریر کے الفاظ کو چیئرمین سینیٹ نے حذف کرتے ہوئے اجلاس ملتوی کر دیا۔

شیئر: