ابتدا میں حجاب کے معاملے پر احتجاج اور مظاہرے اوڈوپی اور اس کے قریب کے علاقوں میں دیکھے گئے۔ تاہم منگل کو یہ مظاہرے شیوا موگا سمیت دیگر شہروں میں بھی پھیل گئے جہاں زعفران کے رنگ کے مفلر پہننے والے لڑکوں کے ایک گروپ نے ’جے شری رام‘ کے نعرے لگائے اور رقص کیا۔
دو شہروں ہریراہا اور دیونگیری میں حجاب پہننے والی مظاہرین اور زعفرانی رنگ کے مفلر پہننے والے ہندو انتہا پسندوں کے گروپس کے ایک دوسرے پر پتھراؤ کے بعد ان شہروں میں اجتماع پر پابندی عائد کی گئی ہے۔ مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے پولیس نے آنسو گیس اور لاٹھیوں کا بھی استعمال کیا۔
مندیہ کے ایک کالج میں ایک مسلمان طالبہ مسکان خان کو دیکھ کر زعفرانی رنگ کے مفلر پہننے والے لڑکوں نے ’جے شری رام‘ کے نعرے لگائے جبکہ لڑکی نے ان کے جواب میں ’اللہ اکبر‘ کا نعرہ لگایا۔ مسلمان طالبہ کی ایک ویڈیو بھی وائرل ہوئی ہے جس میں وہ بلاخوف کالج کی جانب بڑھ رہی ہیں۔
سابق رکن پارلیمان اور جمعیت علمائے ہند کے صدر مولانا محمود مدنی نے مہاتما گاندھی کالج اوڈوپی کی طالبہ مسکان خان کے لیے پانچ لاکھ نقد روپے کا اعلان کیا ہے۔
ریاست کرناٹک میں بی جے پی کی حکومت ہے جس نے اس معاملے پر خاموشی اختیار کی ہے کیونکہ وہ کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے کی منتظر ہے۔ اوڈوپی کے سرکاری کالج کی پانچ مسلمان خواتین نے حجاب کی پابندی کے حوالے سے عدالت میں ایک درخواست دائر کی ہے۔
ریاست کے ہائی کورٹ کی جانب سے فیصلہ ابھی تک اس درخواست پر کوئی فیصلہ نہیں آیا ہے تاہم ہائی کورٹ نے منگل کو تمام لوگوں سے پرامن رہنے کی اپیل کی ہے۔
حجاب کے معاملے پر یہ احتجاج دیگر کالجوں تک پہنچ گیا ہے۔
حجاب کے معاملے پر احتجاج گزشتہ ماہ اوڈوپی کے سرکاری سکول میں ہوا تھا جب چھ طالبات نے الزام لگایا کہ ان کو سکارف نہ پہننے کی وجہ سے کلاس میں داخل نہ ہونے دیا گیا۔ اوڈوپی اور چکمگورو میں دائیں بازوں کے گروپس نے مسلمان طالبات کی کلاسوں میں حجاب پہننے پر اعتراض کیا ہے۔
کالجوں اور سکولوں کی انتطامیہ کا کہنا ہے کہ حجاب یونیفارم کے قواعدوضوابط کے مطابق نہیں۔
سنیچر کو ریاست کی حکومت نے ایسے کپڑوں پر پابندی عائد کی تھی جس کے بارے میں اس کا کہنا ہے کہ اس سے مساوات، اتحاد اور امن عامہ میں خلل پڑ سکتا ہے۔‘