خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق وبا کے دوران دھوکہ دینے والے افراد نے کورونا وائرس کے قواعد و ضوابط کی آڑ میں متاثرین سے نہ ملنے کا بہانا بھی بنایا۔
امریکہ کے فیڈرل ٹریڈ کمیشن کا کہنا ہے کہ کسی نے کورونا وائرس کے ٹیسٹ کا نتیجہ مثبت آنے کی وجہ دی، تو کسی نے لاک ڈاؤن کی وجہ سے لگنے والی سفری پابندی کو وجہ بنایا۔
اسی قسم کے واقع سے متاثر ہونے والے ایک شخص نے آگاہی پھیلانے والے ادارے سائلنٹ وکٹم نو مور کو بتایا ہے کہ کورونا وائرس کے اقدامات کی بنا پر ان کی ’گرل فرینڈ‘ نے ان سے تعلق ختم کر دیا۔
’کورونا کی وبا سے دھوکے بازوں کو فائدہ ہوا ہے۔‘
اس شخص نے اپنے تئیں اپنی گرل فرینڈ کے بارے میں جاننے کی جب کوشش کی تو پتہ چلا کہ جو تصاویر بھیجی گئی تھیں وہ کسی اور کی تھیں۔
تاہم تب تک متاثرہ شخص نے ویزا فیس اور دیگر اخراجات پر چار لاکھ ڈالر خرچ کر دیے تھے۔
امریکی فیڈرل ٹریڈ کمیشن کے مطابق 2021 میں 54 کروڑ 70 لاکھ ڈالر ’رومینس سکیم‘ میں چوری ہوئے ہیں۔
یہ 2020 کے دوران ’رومینس سکیم‘ میں چوری ہونے والی رقم سے 80 فیصد زیادہ ہے۔
سوسائٹی آف سٹیزنز اگینسٹ رلیشنشپ سکیمز کے بانی ٹم مکگنیز کا کہنا ہے کہ آن لائن دھوکے کے واقعات میں اضافہ اکیلے پن کا نتیجہ ہے اور اس کی ایک وجہ انٹرنیٹ تک باآسانی رسائی بھی ہے، جو وبا کے دوران سب سے زیادہ کارآمد ثابت ہوئی ہے۔
ٹم مکگنیز کا کہنا ہے کہ اس قسم کی ہیرا پھیری مہارت کا کام ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ دھوکہ دینے والا یا والی عام بات چیت سے شروع کرتے ہیں جس دوران وہ متاثرہ شخص کو اپنی باتوں میں لانے کا ہر طریقہ اپنا چکے ہوتے ہیں۔
امریکی ایئرفورس کی سابق افسر ڈیبی مونٹگو میری جانسن نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ’انہوں نے سالوں تک اس بات کو سامنے نہیں آنے دیا کہ ایک شخص نے ان سے 10 لاکھ ڈالر چوری کیے تھے۔‘
ڈیبی مونٹگومیری کا کہنا تھا کہ انہیں لگتا تھا وہ شخص ان سے محبت کرتا ہے۔
انہوں نے اس شخص سے بات چیت اپنے شوہر کے انتقال کے بعد شروع کی تھی کیونکہ انہیں کسی کی ضرورت تھی۔