Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انڈین تاریخ کا بڑا بینکنگ فراڈ: اے بی جی کمپنی پر 3ارب ڈالر کی دھوکہ دہی کا الزام

اے بی جی شپ یارڈ پر 3 ارب ڈالر کے بینک فراڈ میں ملوث ہونے کا الزام ہے۔ فوٹو اے ایف پی
انڈیا کی بحری جہاز بنانے والی ایک کمپنی پر ملک کے سب سے بڑے سرکاری بینک اور 27 دیگر مالیاتی اداروں کے ساتھ تین ارب ڈالر سے زیادہ کے فراڈ میں ملوث ہونے کا الزام ہے، جسے اب تک کا سب سے بڑا بینکنگ فراڈ قرار دیا جا رہا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق انڈیا کے وفاقی تحقیقاتی ادارے سینٹرل بیورو آف انوسٹی گیشن (سی بی آئی) نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اے بی جی شپ یارڈ نامی کمپنی نے 28 بینکوں کو تین ارب ڈالر کا دھوکہ دیا ہے۔
گجرات میں واقع بحری جہاز بنانے والی کمپنی نے جیولر نیراو مودی کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے جس نے سال 2018 میں دھوکے کے ذریعے انڈیا کے بینکوں سے دو ارب ڈالر حاصل کیے تھے۔ یہ اس وقت تک کا سب سے بڑا بینکنگ فراڈ سمجھا جاتا تھا۔
انڈیا کے سٹیٹ بینک کی جانب سے جاری فارینسک آڈٹ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گجراتی کمپنی اے بی جی کے دھوکہ دہی کا سب سے بڑا نشانہ نجی بینک ’آئی سی آئی سی آئی‘ بنا جس سے 90 کروڑ ڈالر سے زیادہ ہتھیائے۔
رپورٹ کے مطابق سرکاری بینک ’آئی ڈی بی آئی‘ سے تقریباً 50 کروڑ ڈالر جب کہ انڈین سٹیٹ بینک سے 40 کروڑ ڈالر کا قرض لیا۔
تحقیقاتی ادارے سی بی آئی کا کہنا ہے کہ سال 2012 سے 2017 کے درمیان کمپنی نے فنڈز میں غبن کیا اور بھاری رقم کو ادھر سے ادھر منتقل کیا جب کہ دوسری جانب قرض فراہم کرنے والے ادارے کمپنی کو بند ہونے سے بچانے کی کوششوں میں لگے ہوئے تھے۔
سٹیٹ بینک آف انڈیا نے کمپنی اور بیرون ممالک میں موجود اس کی برانچوں کے علاوہ پانچ ڈائریکٹرز اور دیگر نامعلوم پبلک اور نجی اہلکاروں کے خلاف پولیس سٹیشن میں شکایت درج کروائی ہے۔

اے بی جی کمپنی کو ختم کرنے کے احکامات جاری کے گئے تھے۔ فوٹو اے ایف پی

تحقیاتی ادارے سی بی آئی نے سنیچر  کو ڈائریکٹر کے گھر اور کمپنی دفاتر سمیت 13 مقامات پر چھاپہ مارا ہے۔
سی بی آئی کے مطابق ایسی دستاویزات ملی ہیں جن میں مجرمانہ کارروائیوں میں ملوث ہونے سے متعلق معلومات موجود ہیں اور اس حوالے سے مزید تحقیقات جاری ہیں۔
جب سال 2016 میں انڈیا نے بینک رپسی سے متعلق قانون متعارف کروایا گیا تو اے بی جی کمپنی کو پہلی مرتبہ 2013 میں قرض ادا نہ کرنے کے باعث انڈیا کے 12 بڑے ڈیفالٹرز میں شمار کیا گیا تھا۔
تین سال بعد کمپنی کو ختم کرنے کے احکامات جاری کیے گئے تھے لیکن چار مختلف آکشنز منعقد ہونے کے باوجود کوئی بھی کمپنی کے اثاثوں کا خریدار نہ مل سکا اب گزشتہ دو سال سے نجی طور پر کمپنی کی فروخت کی کوششیں جاری ہیں۔

شیئر: