کراچی میں سٹریٹ کرائمز میں اضافہ، ڈیڑھ ماہ میں11 ہزار وارداتیں
کراچی میں سٹریٹ کرائمز میں اضافہ، ڈیڑھ ماہ میں11 ہزار وارداتیں
پیر 21 فروری 2022 5:56
زین علی -اردو نیوز، کراچی
کراچی شہر میں پولیس کے اعلیٰ افسران کے تبادلے بھی جرائم پر قابو پانے کے لیے مؤثر ثابت نہ ہوسکے (فوٹو اے ایف پی)
پاکستان کے صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں لوٹ مار کی وارداتیں بڑھ گئی ہیں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے سٹریٹ کرائم پر قابو پانا مشکل ہو گیا ہے۔
ایک روز قبل ڈکیتوں کے ہاتھوں مقامی صحافی کے ہلاک ہونے کے بعد سکیورٹی بڑھانے کے دعوے کیے گئے اور اگلے ہی روز کراچی کے علاقے کورنگی کاز وے پر ڈاکوؤں نے ناکہ لگا کر لوٹ مار کی، درجنوں شہریوں سے موبائل فونز، نقدی اور زیورات چھین لیے گئے۔
عینی شاہدین کے مطابق مسلح افراد نے خواتین سے بدتمیزی بھی کی۔ ایس ایس پی کورنگی نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوتے متعلقہ تھانے کے ایس ایچ او کو معطل کردیا۔
شہر کراچی میں امن و امان کی صورت حال ایک بار پھر بگڑنے لگی ہے۔ کراچی پولیس کی کمان تبدیل ہونے کے باوجود جرائم پیشہ افراد سرگرم ہیں۔ شہر میں لوٹ مار اور چھینا جھپٹی کی وارداتیں ہر گزرتے روز کے ساتھ بڑھتی جا رہی ہیں۔ شہر کے تمام علاقے ہی سٹریٹ کرائم میں ملوث افراد کے لیے آسان ہدف بن چکے ہیں۔
پولیس کی جانب سے جاری اعداد و شمار اور دوسرے ذرائع سے جمع کردہ ڈیٹا کے مطابق رواں سال کے ابتدائی ڈیڑھ ماہ میں کراچی میں 11 ہزار واداتیں ہو چکی ہیں۔ مزاحمت پر 13 شہریوں کی جان لی گئی ہے جبکہ 80 افراد کو زخمی کیا جا چکا ہے۔ تین ہزار موبائل فونز شہریوں سے چھینے گئے ہیں۔
کراچی کے پوش علاقوں سے لے کر ریڈزون تک سٹریٹ کرائم کی وارداتیں روز رپورٹ ہو رہی ہیں۔ بیرون ملک سے پاکستان آنے والے بھی سٹریٹ رہزنوں کے نشانے پر ہیں۔ متعدد وارداتوں میں پولیس اہلکار بھی ملوث پائے گئے ہیں۔ حال ہی میں ایئرپورٹ پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے بیرون ملک سے آنے والے افراد کو لوٹنے والا گروہ گرفتار کیا ہے۔
ملیر پولیس کی جانب سے فراہم کردہ معلومات کے مطابق ایس ایس یو کے گرفتار اہلکار کے ہمراہ دیگر پولیس اہلکار بھی وارداتوں میں ملوث ہیں۔ گرفتار ملزمان کے قبضے سے شہریوں سے لوٹی گئی رقم اور ڈیجیٹل کیمرے برآمد کیے گئے ہیں جبکہ ملزمان سے مزید تفتیش کی جا رہی ہے۔
سابق سربراہ سی پی ایل سی احمد چنائے کا کہنا ہے کہ کراچی میں سٹریٹ کرائم پہلے بھی زیادہ تھے لیکن اب اس میں تشدد کا عنصر بڑھ گیا ہے.
’پہلے رہزنوں کی جانب سے گولی مارنے اور جان لینے سے گریز کیا جاتا تھا، اب واردات کے لیے آنے والے نشہ کرکے آتے ہیں اور کسی کی بھی جان لینے سے گریز نہیں کرتے۔‘
ان کے مطابق بڑھتے سٹریٹ کرائمز میں مہنگائی اور بیروزگاری کا بھی ایک کردار ہے لیکن اس کو جواز نہیں بنایا جا سکتا۔
’اس وقت تمام سٹیک ہولڑرز کو مل کر بیٹھنا ہوگا اور اس مسئلے کے فوری حل کے لیے لائحہ عمل بنانا ہوگا۔‘
شہریوں کا کہنا ہے کہ کراچی کے ساتوں اضلاع اس وقت بدامنی کی لپیٹ میں ہیں۔ ضلع جنوبی کے رہائشی محمد فرقان کا کہنا ہے کہ ان کی رہائش کراچی کے سب سے زیادہ حساس علاقے ریڈ زون میں ہے۔ یہاں سکیورٹی کے غیر معمولی اقدامات کے دعوے کیے جاتے ہیں لیکن اس کے باوجود اسی علاقے سے انہیں دو بار اسلحہ کے زور پر لوٹا گیا۔
محمد فرقان کے مطابق ’آئی آئی چندریگر روڈ ایک مصروف شاہراہ ہے، اس کے باوجود ڈکیتوں کے حوصلے اتنے بلند ہے کہ وہ دن دہاڑے باآسانی لوٹ مار کرکے فرار ہوجاتے ہیں۔‘
پچھلے تین سالہ ریکارڈ کے مطابق رواں سال کے ابتدائی ڈھائی ماہ میں وارداتوں کے اعداد و شمار تشویشناک ہیں۔ پولیس کے فراہم کردہ ڈیٹا کے مطابق سال 2019 میں 44 افراد ڈکیتی کی مزاحمت پر مارے گئے تھے جبکہ 282 افراد زخمی ہوئے تھے۔
اس طرح سال 2020 میں 51 افراد کو مارا گیا اور 332 افراد زخمی کیے گئے اور سال 2021 میں 72 افراد کی ڈکیتوں نے جان لی اور 445 افراد کو زخمی کیا جبکہ رواں سال کے ابتدائی ڈیڑھ ماہ میں اب تک 13 افراد کی جان لی جا چکی ہے اور 80 افراد کو ڈکیتی مزاحمت پر زخمی کیا گیا ہے۔
کراچی شہر میں پولیس کے اعلیٰ افسران کے تبادلے بھی جرائم پر قابو پانے کے لیے موثر ثابت نہیں ہو سکے ہیں۔ غلام نبی میمن کو ایڈیشنل آئی جی تعینات کیا گیا ہے۔
ترجمان کراچی پولیس کے مطابق ایڈیشنل آئی جی کراچی نے اپنے پہلے اجلاس میں سٹریٹ کرائم اور منشیات کی فروخت کے خلاف موثر حکمت عملی بنانے کے احکامات دیے تھے۔ نئے پولیس افسر کی تعیناتی کے بعد شہر میں سٹریٹ کرائم کی وارداتوں میں اب تک کمی واقع نہیں ہوسکی ہے۔
دوسری جانب گزشتہ روز کراچی کورنگی کازوے پر ہونے والی واردات کے عینی شائد کے مطابق مسلح افراد نے 20 سے 25 منٹ تک بلاخوف گاڑیوں، رکشوں اور موٹر سائیکل سوار لوگوں سے ناصرف موبائل فونز، نقدی چھینی بلکہ خواتین سے زیورات بھی اتروائے اور ان کے ساتھ بدتمیزی بھی کی۔
ٹریفک جام میں پھنسے افراد سے مسلح افراد باآسانی لوٹ مار کرکے فرار ہوگئے۔ ان کا کہنا ہے کہ کازوے کے دونوں اطراف میں قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کی چوکیاں موجود ہیں اس باوجود مسلح افراد لوٹ مار کرکے نکل گئے۔
جامعہ کراچی کے کرمنالوجی ڈیپارٹمنٹ سے وابستہ ڈاکٹر نائمہ سعید کا کہنا ہے کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد امن وامان کا معاملہ صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے۔
’ صوبائی محکمہ داخلہ کا قلمدان بھی وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کے پاس ہے تو شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کی ذمہ داری وزیراعلیٰ سندھ پر پرعائد ہوتی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ جرائم پر قابو پانے کے لیے نہ صرف پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو موثر کردار ادا کرنا ہوگا بلکہ نوجوانوں کو مثبت ماحول اور بہتر روزگار کے مواقع بھی فراہم کرنے ہوں گے۔