Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’معذرت! مطلوبہ صفحہ دستیاب نہیں‘ کشمیری اخبارات کی آرکائیوز کہاں گئیں؟

اخبارات کی آرکائیوز غائب ہونے پر انڈین حکومت پر سوال اٹھایا جا رہا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی)
انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے اخبارات کی ویب سائٹس پر سے تشدد اور ہلاکتوں سے متعلق واقعات کی خبریں اور رپورٹس غائب ہونے کی شکایات سامنے آئی ہیں۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی نے تشدد اور ہلاکتوں سے متعلق ایک غیر سرکاری تنظیم کی رپورٹ کا حوالہ دیا ہے اور لکھا ہے کہ ’اگر آپ گریٹر کشمیر اخبار کی ’ایک 16 سالہ لڑکے اشتیاق احمد خاندے سمیت تین افراد کی ہلاکت‘ کی خبر پر کلک کریں تو خبر کھلنے کی بجائے آپ کے سامنے ’"404 Oops... Page not found!" error. کے الفاظ آئیں گے۔
اگر آپ 2012 میں پولیس کی حراست میں رہنے کے بعد ہسپتال میں جان کی بازی ہار جانے والے سجاد احمد ڈار کی خبر کے لیے ’کشمیر ریڈر‘ اخبار کی خبر پر جائیں گے تو آپ کو جواب ملے کہ ’معذرت! جو صفحہ آپ تلاش کر رہے ہیں، وہ یہاں نہیں ہے۔‘
غلام محی الدین ملک جنہیں گھر کی تلاشی کے دوران انڈین فورسز نے 19 گولیوں سے چھلنی کر دیا تھا، ان کی خبر اگر ’مائی کشمیر‘ پر تلاش کریں تو سامنے یہ عبارت لکھی ہوئی آئے گی: ’ممنوع! آپ کو اس ریسوس تک رسائی کی اجازت نہیں۔‘
اے ایف پی کے مطابق حالیہ چند مہینوں میں ایسی ہزاروں رپورٹس جو کشمیر میں عشروں پر محیط پرتشدد واقعات کی زمانی ترتیب سے نشاندہی کرتی ہیں، انہیں مقامی اخبارات کی آن لائن آرکائیوز سے مختلف طریقوں سے غائب کر دیا گیا ہے یا پھر ان تک رسائی مسدود کر دی گئی ہے۔
ناقدین اس اقدام کو ’تاریخ کو محو کرنے اور بیانیوں کو کنٹرول کرنے‘ کا ایک ’آرویلین اقدام‘ قرار دے رہے ہیں۔ اور ان میں سے بیش تر اس حوالے سے انڈین حکومت پر سوال اٹھا رہے ہیں۔
انگریزی اخبار ’کشمیر ٹائمز ڈیلی‘ کی ایگزیکٹو ایڈیٹر انورادھا بھسین نے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ عجیب پراسرار معاملہ ہے کہ کیسے آرکائیوز غائب ہو رہی ہیں اور کیوں۔‘
’کچھ وجوہات تو سمجھ میں آتی ہیں۔۔۔ گو کہ یہ شک و شبہات پر ہی مبنی ہیں کہ (شاید) ریاست کے اندر سے ہی کوئی اس جرم میں شریک ہے۔‘

اگست 2019 میں انڈیا نے کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کر دی تھی۔ فوٹو: روئٹرز

واضح رہے کہ کشمیر پر کنٹرول کا معاملہ 1947 کے بعد سے انڈیا اور پاکستان کے درمیان متنازع چلا آ رہا ہے اور ایٹمی طاقت کے حامل یہ دونوں ممالک اس مسئلے پر دو جنگیں بھی لڑ چکے ہیں۔
انڈیا نے کشمیر میں لگ بھگ پانچ لاکھ فوجیوں کو مستقل طور پر تعینات کر رکھا ہے جو ’طویل عرصے سے جاری دراندازی کے خلاف‘ لڑ رہے ہیں اور اس کے نتیجے میں 1989 کے بعد سے اب تک ہزاروں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
انڈیا کا پاکستان پر الزام ہے کہ وہ دراندازوں کی پشت پناہی کرتا ہے لیکن پاکستان اس دعوے کو تسلسل کے ساتھ مسترد کرتا رہا ہے۔
اگست 2019 میں انڈیا کی جانب سے کشمیر کی محدود خودمختاری کے خاتمے کے بعد اسے دہلی کے براہ راست کنٹرول میں لانے کا فیصلہ ہوا، جس کے بعد سے سیاسی رہنماؤں سمیت ہزاروں کشمیریوں کو حراست میں لیا گیا۔
اس دوران فون لائنز اور انٹرنیٹ کو منقطع بھی کر دیا گیا تھا جو بعد میں دنیا کا سب سے طویل ’کمیونیکشن بلیک آؤٹ‘ بن گیا تھا۔
کشمیر کے مرکزی شہر سری نگر کے ایک اخبار کے ایڈیٹر نے انتقامی کارروائی کے خدشے کی بنا پر نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے ایف پی کو بتایا کہ پہلے تو انہیں یہ لگا کہ یہ کوئی تکنیکی مسئلہ ہے۔

پرتشدد اور ہلاکتوں سے متعلق خبریں اخبارات کی آرکائیوز سے غائب ہیں۔ فوٹو اے ایف پی

’لیکن آن لائن آرکائیوز کا ذرا غور سے جائزہ لینے پر ہمیں پتا چلا کہ حالیہ برسوں میں ہونے والے بڑے عوامی اجتجاجوں اور ہلاکتوں سے متعلق خبریں غائب ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ یہ کچھ اس انداز سے کیا گیا کہ تاکہ لگے کہ ’2019 سے قبل کشمیر میں کچھ ہوا ہی نہیں۔‘
اکثر ایسی خبروں کو غائب کیا گیا جو 2008، 2010 اور 2016 میں انڈیا کے خلاف کشمیر میں ہونے والے بڑے عوامی احتجاجوں سے متعلق ہیں، جن میں مجموعی طور پر 300 مظاہرین کو انڈین فورسز نے ہلاک کیا۔ اور اس دوران بچوں اور خواتین سمیت ہزاروں افراد زخمی ہوئے۔
کشمیر کے ضلع پلوامہ میں قائم اسلامک یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے بانی وائس چانسلر صادق وحید نے اسے ان واقعات کے متعلق صرف ایک بیانیے یا موقف کو یقینی بنانے کی ’شیطانی کوشش‘ قرار دیا ہے۔
’جارج آرویل نے اپنے ناول 1984 میں ’شہریوں کی نگرانی‘ کا جس انداز میں ذکر کیا ہے، حالیہ اقدامات کے مقابلے میں وہ کم محسوس ہوتے ہیں۔‘

شیئر: