Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کشمیر نے برصغیر کو کون سے نامور افراد دیے؟

1975 میں اندرا عبداللہ معاہدے‘ کے خلاف ذوالفقار علی بھٹو نے دنیا بھر میں کشمیریوں کو احتجاج کی کال دی۔ (فائل فوٹو: ٹوئٹر)
آج پانچ فروری یوم یکجہتی کشمیر کی روایت کو 33 برس ہو چلے ہیں۔ قاضی حسین احمد کی تجویز اور وزیراعظم بے نظیر بھٹو کی تائید اور سرکاری سرپرستی کے بعد سے ہر سال یہ دن منایا جاتا ہے۔
بے نظیر بھٹو کے والد ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں پہلی بار لائن آف کنٹرول کے دونوں اطراف کشمیریوں سے یکجہتی کے لیے شٹر ڈاؤن ہڑتال کر کے یہ دن منایا گیا۔
یہ محض اتفاق تھا کہ 1975 میں ’اندرا عبداللہ معاہدے‘ کے خلاف ذوالفقار علی بھٹو نے دنیا بھر میں کشمیریوں کو احتجاج کی کال دی تو یہ 24 فروری کا دن تھا۔‘
یہ حقیقت دلچسپی سے خالی نہیں کہ کشمیریوں کی تاریخ اور تحریکوں میں فروری کا مہینہ اہم رہا ہے۔ آج سے 125 برس قبل فروری کے مہینے میں ہی برصغیر میں کشمیریوں کی پہلی تنظیم کی داغ بیل ڈالی گئی تھی۔
’انجمن کشمیری مسلمانان لاہور‘ کے نام سے فروری 1896 میں قائم ہونے والی اس انجمن کے پہلے سیکریٹری جنرل علامہ اقبال تھے۔
اس تنظیم کے بانی اور محرک وہ کشمیری النسل باشندے تھے جو مختلف اوقات میں ریاست کشمیر سے لاہور اور پنجاب کے دیگر شہروں میں آ کر آباد ہوئے۔
انگریز مصنف والٹر لارنس کے مطابق ’کشمیر میں غربت، قحط، زلزلوں اور حکمرانوں کے مظالم کی وجہ سے 18 ویں صدی کے اوآخر اور 19 ویں صدی کے ابتدائی عشروں میں ہزاروں کشمیری خاندان انڈیا کے مختلف علاقوں کو ہجرت کر گئے۔‘
اِنہیں کشمیری النسل باشندوں نے اپنے آبائی علاقے کے ساتھ تعلق خاطر کے لیے اس انجمن کو ’آل انڈیا مسلم کشمیری کانفرنس‘ کا نام دے کر اس کا دائرہ کار پورے انڈیا تک بڑھا دیا۔

’انجمن کشمیری مسلمانان لاہور‘ کے کے پہلے سیکریٹری جنرل علامہ اقبال تھے (فوٹو: سوشل میڈیا)

قیام پاکستان کے بعد اس تنظیم نے ’آل پاکستان مسلم کشمیری کانفرنس‘ کا نام اختیار کیا۔ اکثر قارئین کے علم میں یہ بات نہیں ہوگی کہ پاکستان کے سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف سیاست میں آنے سے قبل 1980 میں اس تنظیم کے صدر تھے۔
پاکستان کے زِیر انتظام کشمیر کے سابق صدر محمد حیات خان اپنی آب بیتی ’داستان حیات‘ میں نواز شریف سے اس حیثیت میں ہونے والی ملاقاتوں کی تفصیل بیان کرتے ہیں۔
پاکستان اور انڈیا کے سابق وزرائے اعظم نواز شریف اور پنڈت جواہر لال نہرو کے کشمیری پس منظر سے اکثریت واقف ہے، مگر شاید بہت کم لوگوں کے علم میں ہوگا کہ پاکستان کے سابق گورنر جنرل اور وزیراعظم خواجہ ناظم الدین بھی کشمیری النسل تھے۔ ان کا خاندان ریاست کشمیر سے بنگال میں جا بسا تھا۔
بنگال کا ذکر ہوا ہے تو نواب آف ڈھاکہ نواب سلیم اللہ خان کو آل انڈیا مسلم لیگ کے بانی کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ تحریک آزادی کی شروعات کرنے والے نواب صاحب کے آباؤ اجداد کا تعلق بھی ریاست کشمیر سے تھا۔
انڈیا کی آزادی کی جدوجہد میں جلیانوالہ باغ کے خونی واقعات کو پنجاب کی بیداری کے محرک کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔
تاریخ میں جلیانوالہ کا ہیرو اور شہنشاہ سیاسیات کہلانے والے ڈاکٹر سیف الدین کچلو ایک سچے قوم پرست رہنما تھے۔ ان کی زندگی کے 17 برس جیل میں بسر ہوئے۔
جلیانوالہ باغ کے جس جلسے میں سکھ اور مسلمان انگریزوں کی گولیوں کا نشانہ بنے، اس کی صدارت سیف الدین کچلو اور لالا لاجپت رائے نے کرنی تھی۔ ان کی گرفتاری کے باوجود جلسے میں خالی کرسی پر ڈاکٹر کچلو کی تصویر رکھ کر ان کی علامتی شرکت کا اہتمام کیا گیا۔
انڈیا کی آزادی کے اس جری رہنما نے سنہ 1888 میں امرتسر کے ایک کشمیری تاجر خاندان میں آنکھ کھولی۔ علی گڑھ، کیمبرج اور برلن سے تعلیم حاصل کی۔ وہ آل انڈین کانگریس کے مرکزی سیکریٹری جنرل اور پنجاب کے صدر بھی رہے۔
1963 میں انڈیا میں ان کا انتقال ہوا اور وہیں دفن ہوئے۔ ڈاکٹر سیف الدین کچلو کی بیٹی وحیدہ پاکستان آ گئیں۔ وہ گوجرانوالہ اور راولپنڈی میں گرلز کالج کے پرنسپل کے طور پر فرائض سر انجام دیتی رہیں۔

کندن لال سہگل کی پیدائش 1904 میں جموں شہر کے ایک گھرانے میں ہوئی (فائل فوٹو: سٹارز انفولڈڈ)

کشمیری رہنما شیخ عبداللہ کے نام سے تو سب واقف ہیں مگر انہی کے ہم نام اور ہم وطن ایک اور شیخ عبد اللہ ہماری تاریخ کا ایک فراموش کردہ کردار ہیں۔
وہ سرسید احمد خان کے قریبی رفیق تھے۔ انہوں نے وہ کام کر دکھایا جسے کرنے میں سر سید کو بھی تامل تھا۔ یہ تھا مسلمان لڑکیوں کی تعلیم کے لیے گرلز سکول کا قیام، سنہ 1906 میں شیخ عبداللہ اور ان کی اہلیہ بیگم وحید جہاں نے علی گڑھ گرلز سکول قائم کیا۔
اس جوڑے نے خواتین کی تعلیم کے معاملے میں رجعت پسندانہ سوچ اور مخالفت کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے جو روایت قائم کی اس کے اثرات مسلم معاشرے پر بہت گہرے ہیں۔
شیخ عبداللہ کا تعلق اس دور کے کشمیر کی ذیلی ریاست پونچھ سے تھا۔ ان کی بیٹی رشیدہ جہاں ترقی پسند تحریک کی بانیوں میں سے تھیں۔ جنہوں نے فیض احمد فیض کو اس تحریک سے متعارف کروایا۔ پاکستان ٹیلی ویژن کے ڈراموں کی معروف اداکارہ بیگم خورشید جہاں بھی انہی شیخ عبداللہ کی بیٹی تھیں۔
ریاست کشمیر کے خطے جموں کی دیگر خصوصیات کے ساتھ ایک صفت ایسی بھی ہے جو اسے مقبول اور ممتاز کرتی ہے۔ اس کی مٹی سے برصغیر کے دو چوٹی کے گلوکاروں کا جنم ہوا۔ کندن لال سہگل اور ملکہ پکھراج کے مدھر اور پرسوز گیتوں کا شہرہ پاکستان اور انڈیا کے کونے کونے میں ہے۔
کندن لال سہگل کی پیدائش 1904 میں جموں شہر کے ایک گھرانے میں ہوئی۔ انہیں انڈین فلمی صنعت کا پہلا سپر سٹار مانا جاتا ہے۔ والدہ کی موسیقی سے رغبت کے باعث انہوں نے سُر اور ساز سے ناطہ جوڑا۔
اگرچہ انہوں نے 1932 میں فلم ’محبت کے آنسو‘ سے فلمی سفر کا آغاز کیا مگر ان کی حقیقی شہرت کا باعث آر سی بورل کی فلم ’دیوداس‘ بنی۔
1935 میں ریلیز ہونے والی اس فلم کے گیتوں نے راتوں رات سہگل کو شہرت کی بلندیوں تک پہنچا دیا۔ 1947 میں اپنے انتقال تک انہوں نے 15 برس کے فلمی سفر میں 36 سے زیادہ فلموں میں گلوکاری اور اداکاری کے ذریعے انمٹ نقوش چھوڑے۔ آج بھی پلے بیک سنگنگ کا تذکرہ سہگل کے بغیر ادھورا ہے۔
ملکہ پکھراج بھی سہگل کی ہم عصر اور ہم وطن تھیں۔ کشمیر کے علاقے اکھنور کے قریب ایک قصبے میں 1910 میں پیدا ہوئیں۔ استاد بڑے غلام علی خان کے والد استاد علی بخش سے کلاسیکی موسیقی کی تربیت لی۔

میاں محمد نواز شریف سیاست میں آنے سے قبل ’آل پاکستان مسلم کشمیری کانفرنس‘ کے صدر تھے (فائل فوٹو: روئٹرز)

نوعمری میں ملکہ پکھراج نے مہاراجہ کشمیر ہری سنگھ کے دربار میں فن کا مظاہرہ کیا جو ان کے درباری گلوکارہ بننے کا باعث بنا۔
مہاراجہ کے دربار میں خصوصی حیثیت اور منزلت ہی ان کی سرینگر سے ہجرت کا باعث بنی۔ اس دور کے ایک اخبار نے ان سے منسوب جھوٹی خبر شائع کر دی کہ وہ مہاراجہ کو زہر دے کر قتل کرنا چاہتی تھیں۔
ملکہ پکھراج نے شبیر حسین شاہ سے شادی کے بعد لاہور بسیرا کر لیا۔ کشمیری نژاد شاعر حفیظ جالندھری کی نظم ’ابھی تو میں جوان ہوں ‘ کو ایسے چاؤ اور سبھاؤ سے گایا کہ عشروں بعد بھی یہ گانا پرانا نہیں ہوا۔
ملک کے معروف قانون دان اور سابق وفاقی وزیر ایس ایم ظفر ان کے داماد ہیں۔ ان کی بیٹی طاہرہ سید نے والدہ کی گائیکی کی روایت کو جاری رکھا۔ غزل کے علاوہ انہیں راگ پہاڑی کی گائیکی پر بھی خصوصی ملکہ حاصل ہے۔
یہ ایک دلچسپ اتفاق ہے کہ کشمیری پس منظر کے حامل دو فوجی افسران پاکستان اور انڈیا میں چیف آف جنرل سٹاف کے عہدے تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔
لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ بی ایم کول 1960 میں انڈین کے چیف آف جنرل سٹاف کے عہدے پر فائز رہے۔ اسی طرح جنرل ریٹائرڈ عبدالحمید خان 1970 میں پاک فوج کے چیف آف جنرل سٹاف تھے۔
اسی دور میں پاکستان نیوی کے چیف آف سٹاف ایڈمرل شریف خان بھی کشمیر النسل خاندان سے سے نسبت رکھتے تھے۔ پاکستان فضائیہ کے سابق سربراہ مصحف علی میر بھی لاہور کی ایک کشمیری فیملی سے تعلق رکھتے تھے۔
پاکستانی فوج کا ذکر نشان حیدر پانے والے شہید میجر عزیز بھٹی کے بغیر ادھورا ہے۔ معروف محقق اور سابق جج جسٹس یوسف صراف اپنی کتاب ’کشمیریز فائٹ فار فریڈم‘ میں صحافی اصغر علی گھرال کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ عزیز بھٹی کے دادا کشمیر کے علاقے بارہمولہ سے ہجرت کر کے پنجاب میں جا بسے تھے۔
قیام پاکستان کے ابتدائی برسوں میں پنجاب اور سندھ کے گورنر کے عہدے بھی کشمیری نژاد باشندوں کے پاس رہے ہیں۔
لاہور کے پہلے میئر رہنے والے میاں امین الدین 50 کی دہائی میں پنجاب کے گورنر رہے ہیں۔ انہی کے خاندان سے خواجہ طارق رحیم بھی اسی منصب پر فائز رہ چکے ہیں۔

ذوالفقار علی بھٹو کے پریس سیکریٹری اور معروف صحافی خالد حسن سرینگر میں پیدا ہوئے تھے۔ (فوٹو: سوشل میڈیا)

موجودہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی اہلیہ انہیں امین الدین کی پوتی ہیں۔ سابق ہاکی اولمپین اور پیپلز پارٹی کے سابق ایم پی اے قاسم ضیا بھی ان کے پوتے ہیں۔
کشمیری پس منظر کے حامل شیخ دین محمد قیام پاکستان کے بعد سندھ کے دوسرے گورنر چکے ہیں۔
پنجاب کے تین اضلاع لاہور، گوجرانوالہ اور سیالکوٹ کے کشمیری خاندانوں نے پاکستان کی مقامی سیاست میں عروج پایا۔
خواجہ آصف کے والد خواجہ محمد صفدر، خواجہ سعد رفیق کے والد خواجہ محمد رفیق، خرم دستگیر کے والد غلام دستگیر اور ڈاکٹر آصف کرمانی کے والد احمد سعید کرمانی کارزارِ سیاست میں مصروف کار رہے ہیں۔
20 ویں صدی کے ابتدائی چار عشروں میں لاہور سے کشمیر کے نام پر ہفت روزہ اخبارات ریاست کشمیر میں بہت مقبول رہے تھے۔ ان میں شیخ جان محمد غنی کا ’کشمیر گزٹ‘ اور محمد دین فوق کا ’کشمیر میگزین‘ نمایاں تھے۔
اردو کے صاحب طرز ادیب اور صحافی چراغ حسن حسرت پونچھ میں پیدا ہوئے۔ اردو زبان و بیان پر ان کی دسترس اور مہارت کے معترف اہل زبان بھی تھے۔
خطابت اور صحافت میں یکساں مقبول اور منفرد آغا شورش کاشمیری کے اجداد کا وطن بھی کشمیر تھا۔
پاکستان کے زِیر انتظام کشمیر کے سابق صدر کے ایچ خورشید کے کزن اور ذوالفقار علی بھٹو کے پریس سیکریٹری اور معروف صحافی خالد حسن سرینگر میں پیدا ہوئے تھے۔
برصغیر کے اولین ڈرامہ نویس آغا حشر کاشمیری اور معروف دانشور ایم ڈی تاثیر نے  بھی کشمیری النسل خاندان میں جنم لیا۔
پنجاب کے سابق گورنر سلمان تاثیر کے والد ایم ڈی تاثیر سری پرتاپ کالج سرینگر کے پرنسپل بھی رہے ہیں۔ معروف شاعر فیض احمد فیض کی اہلیہ ایلس فیض اور ایم ڈی تاثیر کی زوجہ آپس میں بہنیں تھیں۔
مشہور برٹش پاکستانی ناول نگار محسن حامد بھی کشمیری نژاد خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔

کشمیری صحافی بشارت پیر نے فلم ’حیدر‘ کا سکرین پلے لکھا تھا (فوٹو: ٹوئٹر)

انڈیا کے زِیر انتظام کشمیر سے تعلق رکھنے والے بشارت پیر معروف امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کے ایڈیٹوریل بورڈ کا حصہ ہیں۔ انہوں نے بالی وڈ کی فلم ’حیدر‘ کا سکرین پلے بھی لکھا تھا۔
بھارتی فلم ’دنگل‘ سے شہرت پانے والی زائرہ وسیم کا تعلق سری نگر سے ہے۔ اگرچہ وہ اب اداکاری سے کنارہ کشی اختیار کر چکی ہیں مگر بہت کم عمری میں انہوں نے انڈین فلم فیئر ایوارڈ اور نیشنل فلم ایوارڈ حاصل کر کے فلمی حلقوں کو حیران کر دیا تھا۔
پاکستان میں کشمیر پر بننے والی فلم ’یہ امن‘ کے ڈائریکٹر ریاض شاہد، معروف اداکار علاؤالدین، کامیڈین خالد عباس ڈار، مزاحیہ رائٹر یونس بٹ، اداکار احد رضا میر، سویرا ندیم، ثمینہ پیرزادہ اور گلوکار علی عظمت کشمیری نژاد خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔
ایسے عالی دماغ اور نابغہ روزگار ہستیوں کے آبائی وطن کشمیر کو تاریخ کے جبر کے ہاتھوں بہت کرب سہنا پڑے۔ اسی سرزمین سے نسبت رکھنے والے شیخ علامہ محمد اقبال کا یہ شعر کشمیریوں کی خصوصیات کا بیان اور موجودہ حالت زار کا نوحہ ہے۔
آہ یہ قومِ نجیب و چرب دست و تر دماغ
ہے کہاں روز مکافات اے خدائے دیر گیر

شیئر: