Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سوشل میڈیا پر وائرل بچی کے والد ’پارٹی‘ کے بعد پریشان

آٹھ سالہ وفا شنواری کا تعلق خیبر پختونخوا کے ضلع خیبر سے ہے (فوٹو: سوشل میڈیا)
دنانیر مبین نے جو’پاوری‘ شروع کی تھی وہ ابھی ختم نہیں ہوئی بلکہ چلتی ہی جا رہی ہے۔ جب یہ ویڈیو پہلی بار منظرعام پر آئی تھی تو انٹرنیٹ پر ہر دوسرے شخص نے میمز شیئر کیں اور بہت سے لوگوں نے اسی انداز میں ویڈیوز بھی بنائیں مگر وہ کہتے ہیں نا کہ ’جو بات اصل میں ہے وہ نقل میں کہاں؟‘
لیکن آج کل سوشل میڈیا پر ایک بچی کی ویڈیو وائرل ہے جو ویسے تو اسی ویڈیو کی کاپی ہے لیکن اسے بھی اتنی ہی پذیرائی مل رہی ہے۔
ویڈیو میں لال سوٹ میں ملبوس بچی کو والد اور چند دیگر بچوں کے ہمراہ پہاڑی علاقے میں دیکھا جاسکتا ہے۔
بچی کے والد ایک چٹائی پر دیگر بچوں کے ہمراہ گوشت کاٹنے میں مصروف ہیں۔
ویڈیو میں ننھی بچی دنانیر مبین کے سٹائل میں بتاتی ہے کہ ’ہائے گائیز! یہ میں ہوں‘ پھر کیمرہ گھماتے ہوئے اپنے والد کو دکھا کر کہتی ہے کہ ’اور یہ ہمارا باپ ہے اور یہ ہمارے باپ کی پارٹی ہو رہی ہے۔‘
ویڈیو میں نظر آنے والی یہ بچی آٹھ سالہ وفا شنواری ہیں جن کا تعلق خیبر پختونخوا کے ضلع خیبر سے ہے۔
 وفا شنواری اپنے والد کے ساتھ سیرو تفریح کے لیے گئی تھیں جہاں انہوں نے اپنے والد کے موبائل میں یہ ویڈیو ریکارڈ کی تھی۔
وفا شنواری دیکھتے ہی دیکھتے سوشل میڈیا پر مقبول ہو گئیں، ان کے والد لوگوں کے مثبت رعمل پر خوش تو ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ وہ فکر مند بھی ہیں کیونکہ نیوز چینلز پر وفا کے انٹرویوز چلنے کے بعد ان کے خاندان کے افراد ناراض ہوگئے ہیں۔
وفا شنواری کے والد امیر شنواری نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’ہم اکثر اتوار کے روز بچوں کو سیروتفریح کے لیے لے جاتے ہیں، یہ ویڈیو تین مہینے پرانی ہے۔ میں کام میں مصروف تھا جب بیٹی نے موبائل لے کر ویڈیو بنائی جس کا مجھے علم نہیں تھا۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’میں نے بعد میں موبائل میں یہ ویڈیو دیکھی جو مجھے بہت اچھی لگی اور دوستوں نے بھی اسے کافی پسند کیا اور اس کو ٹک ٹاک پر ا پلوڈ کرنے کا مشورہ دیا۔‘
امیر شنواری نے بتایا کہ ’دوستوں نے ٹک ٹاک اکاؤنٹ بنا کر اس پر ویڈیو اپ لوڈ کردی اور کچھ ہی گھنٹوں میں یہ وائرل ہوگئی اور سینکڑوں پیغامات موصول ہونے لگے۔‘
وفا شنواری کے والد کہتے ہیں کہ اگرچہ وہ لوگوں کے ردعمل سے خوش تو ہیں لیکن خاندان والوں کی ناراضی سے پریشان بھی ہیں۔
’جیسے ہی انٹرویو نشر ہوا تو رشتہ داروں اور جاننے والوں کے فون کالز اور میسیجز آنے شروع ہوگئے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’میرے بڑے بھائی اور بچی کے ماموں کو بھی دوستوں کی کالز آئیں جس میں بعض تو خوش ہو رہے تھے لیکن بعض لوگوں نے انہیں تنقید کا نشانہ بھی بنایا جس کی وجہ سے وہ اب ہم سے ناراض ہیں۔‘
امیر نے بتایا کہ ’ہمیں اندازہ نہیں تھا کہ یہ ویڈیو اتنی وائرل ہوجائے گی، ہم قبائلی سادہ پشتون ہیں اور سوشل میڈیا کے حوالے سے اتنا علم بھی نہیں رکھتے۔‘
وفا شنوای کے والد کے بقول ’لوگوں نے سوشل میڈیا پر منفی تبصرے بھی کیے کہ انہیں سکول بھیجوں تو کسی نے لکھا کہ یہ مدرسہ کیوں نہیں جاتی جو ویڈیوز بناتی ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ “میری بچی سکول میں بھی پڑھتی ہے اور پوزیشن بھی لیتی ہے۔ اپنی بچی کی صحیح طریقے سے پرورش کرنا اور حوصلہ افزائی کرنا میرا فرض ہے اور وہ اس فرض کو بہتر طریقے سے سرانجام دیں گے۔‘

سوشل میڈیا پر وائرل ہونا نقصان دہ کیسے؟ 

اس حوالے سے میڈیا امور پر نظر رکھنے والی تنظیم میڈیا میٹر فار ڈیموکریسی کے بانی اسد بیگ نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’اکثر اوقات ایسا ہوتا ہے کہ کسی کے مرضی کے بغیر ہم ان کی ویڈیو یا تصویر بنا کے شیئر کر دیتے ہے جو بالکل اخلاقی طور پر اور قانوناً بھی ٹھیک نہیں ہے۔‘ 
انہوں نےبتایا کہ سوشل میڈیا صارفین اور کنٹینٹ کریٹر کو کنسیٹ (باہمی رضامندی) کے حوالے سے معلومات اور اس سے آگاہ ہونا بہت ضروری ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’جہاں تک بچوں کا معاملہ ہے تو ان کے والدین  یا گارڈین کی مرضی سے ان کی تصویر یا ویڈیو بنائی جاسکتی ہے۔ بدقسمتی سے ہمیں یہ اندازہ ہی نہیں کہ جو چیزیں ہم بناتے ہیں اسے کس طرح سے استعمال کرنا ہے۔‘
اسد بیگ کے بقول ’پاکستان میں اکثر غیر تصدیق شدہ اور غلط خبروں کے علاوہ ایسے مواد شیئر ہوتے ہیں جنہیں لوگوں کے سامنے سوشل میڈیا اور مین سٹریم میڈیا پر لانے سے پہلے یہ نہیں سوچا جاتا کہ اس کا لوگوں پر کیا اثر ہوگا۔‘

اسد بیگ کا کہنا ہے کہ موبائل تو آج کل سب کے پاس ہے لیکن ڈیجیٹل لٹریسی کے حوالے سے آگاہی نہیں‘ (فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے بتایا کہ ’اسی طرح کے کئی واقعات دیکھنے کو ملتے ہیں جہاں سوشل میڈیا اور مین سٹریم میڈیا پر ویڈیوز چلتی ہیں جس سے کسی دوسرے بندے کو پریشانی سے گزرنا پڑتا ہے۔‘ 
اس کی مثال دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’حال ہی میں سوشل میڈیا پر اسی طرح کا ایک واقعہ پیش آیا تھا جس میں دو لڑکیوں کی ویڈیو وائرل ہوئی جو جسٹن بیبر کے گانے کو خوبصورت انداز میں گا رہی تھیں۔‘ 
’لڑکیوں کے انٹرویوز بھی مختلف ٹی وی چینلز پر نشر ہوئے اور بعد میں پتہ چلا کہ ان کے خاندان والوں کی مرضی کے بغیر یہ انٹرویو نشر کیے گئے اور انہیں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔‘ 
اسد بیگ کہتے ہیں کہ صحافیوں کو بھی اس حوالے سے ذمہ داری کا ثبوت دینا چاہیے اور انہیں خیال رکھنا چاہیئے کہ وہ کوئی بھی خبر یا معلومات تصدیق کیے بغیر ہرگز شیئر نہ کریں۔ جبکہ کسی کی تصویر یا ویڈیوں شئیر کرنے سے پہلے اس کی مرضی اور اجازت لینا ضروری ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ موبائل تو اج کل سب کے پاس ہے لیکن ڈیجیٹل لٹریسی کے حوالے سے آگاہی نہیں جو لازمی ہے۔

شیئر: