اگر آن ترک شیرازی به دست آرد دل ما را
به خال هندویش بخشم سمرقند و بخارا را
فارسی کے منفرد و بے بدل شاعر حافظ شیرازی کا یہ شہرۂ آفاق شعر اہلِ ذوق کے ہاں ہر دور میں برابر زبان زدِعام رہا ہے۔ شعر کیا ہے؟ ایک دل سوختہ عاشق کی تمنا ہے اور اس تمنا کی برآری کی صورت میں اس کی اپنے محبوب کے لیے ایک پیشکش ہے۔
مزید پڑھیں
-
دعوتِ سمرقند سے دعوتِ شیراز بھلیNode ID: 471336
-
تاشقند میں پاکستان اور کویت کے وزرا خارجہ کی ملاقاتNode ID: 583586
حافظ کہتے ہیں اگر شیرازی معشوق ہمارا دِل تھام لے تو میں اس کے رخسار کے سیاہ تِل کے بدلے اسے سمرقند و بخارا بخش دوں۔
محبوب کو دیے جانے والے تحفے کا قیمتی اور منفرد ہونا تو دیارِعشق کی قدیم اور مستقل روایت ہے۔ یہاں حافظ شیرازی نے سمرقند اور بخارا کو بطور استعارہ استعمال کرکے یہ باور کرایا ہے کہ صدیوں سے یہ شہر کتنے عالی شان اور پُرشکوہ چلے آ رہے ہیں۔ تاجکستان کے قومی شاعر، ناول نگار اور دانشور صدر الدین عینی نے بھی ایک طویل نظم سمرقند اور بخارا کی مدح میں لکھ رکھی ہے۔
سمرقند و بخارا کی اہمیت کی ان گنت جہات ایسی ہیں کہ ہر ایک پر الگ الگ مضمون باندھا جا سکتا ہے۔ فی الوقت خبر یہ ہے کہ ازبکستان کے صدر شوکت مرزایوف دو روزہ دورے پر پاکستان پہنچے ہیں۔ یہ دورہ اس دعوت کا نتیجہ ہے جو پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے ازبکستان کے صدر کو گزشتہ ماہ چین کے دارالحکومت بیجنگ میں ملاقات کے دوران دی تھی۔
![](/sites/default/files/pictures/March/43881/2022/uzbekistan_1.jpg)
پاکستان اور ازبکستان کے درمیان سیاسی یا سرکاری تعلقات کی تاریخ بہت زیادہ پرانی نہیں ہے، یہی کوئی تین دہائیوں کا قصہ ہے لیکن ان دونوں خطوں کے عوام خاص طور پر علمی، مذہبی اور ادبی حلقوں کے درمیان باہمی دلچسپی کے بے شمار عنوان ہیں۔ آگے چل کر ان پر بھی بات کرتے ہیں۔
جغرافیائی طور پر منفرد ریاست
یکم ستمبر 1991 کو سوویت یونین سے آزادی حاصل کرنے والے اس وسط ایشیائی ملک کا سرکاری نام جمہوریہ ازبکستان ہے۔ یہ پانچ ممالک قازقستان، کرغیرستان، ترکمانستان، تاجکستان اور افغانستان کے درمیان گھرا ہوا ہے۔ دلچسپ پہلو یہ ہے کہ یہ پانچوں ایسے ممالک ہیں جن کی کوئی بھی سرحد سمندر سے نہیں ملتی۔ ایسے ممالک کو جغرافیے کی اصطلاح میں لینڈ لاک یا خشکی سے محصور ممالک کہا جاتا ہے اور ان کے بیچ واقع ہونے کی وجہ سے ازبکستان کو ’ڈبل لینڈ لاک‘ خطہ کہا جاتا ہے۔
ازبکستان کے دارالحکومت کا نام تاشقند ہے جو ملک کا سب سے بڑا شہر ہے۔ اس ملک کی اکثریت ازبک زبان بولتی ہے جسے ترک زبانوں کی برادری میں شمار کیا جاتا ہے۔ آبادی ساڑھے تین کروڑ سے کچھ زیادہ ہے اور یہاں زیادہ تر لوگ سنی اسلام کے پیروکار ہیں۔ دیگر مذاہب یہودیت، مسیحیت، بدھ مت اور بہائیت کے پیروکار بھی اس ملک میں آباد ہیں لیکن ان کی تعداد بہت کم ہے۔
اسلامی تاریخ کی کتابوں میں جب ’ماورا النہر‘ کے علاقوں یا علماء کا ذکر کیا جاتا ہے تو اس سے ازبکستان، تاجکستان اور جنوب مغربی قازقستان مراد ہوتے ہیں۔
ازبکستان کے دستور کے مطابق یہ ایک سکیولر ملک ہے جس میں مذہبی تنظیموں اور اداروں کا ریاستی امور میں کوئی عمل دخل نہیں ہے۔
نابغۂ روزگار شخصیات کا خطہ
یہ خطہ مختلف تاریخی ادوار میں مختلف سلطنتوں کے تحت رہا۔ یہاں بسنے والے اولین افراد مشرقی ایران کے باشندے تھے۔ ساتویں صدی عیسوی کی مسلم فتوحات کے بعد اس علاقے میں مذہب اسلام تیزی سے پھیلا۔ اسی دور میں یہاں شاہراہ ریشم تعمیر کی گئی جس نے اس خطے کو دنیا سے جوڑنے کے ساتھ ساتھ نئی پہچان بھی عطا کی۔ خاص طور پر امیر تیمور کے دور میں تعمیر ہونے والی عمارات کو یہاں تاریخی اہمیت حاصل ہوئی۔
یہاں کے اسلامی تاریخ کے چند بڑے علمی اور مذہبی حوالے اسی دور میں مرجع خلائق بنے۔ حدیث کے ممتاز عالم اور مشہور کتاب ’الصحیح البخاری‘ کے مصنف امام محمد بن اسماعیل البخاری اور ’جامع الترمذی‘ کے مصنف امام محمد بن عیسیٰ الترمذی کا تعلق بھی اسی خطے سے تھا۔ حدیث کی ان دونوں کتابوں کا شمار عالمِ اسلام میں مذہبی تعلیمات کے مستند ترین مراجع سمجھی جانی والی چھ کتابوں (صحاح ستہ) میں ہوتا ہے۔
![](/sites/default/files/pictures/March/43881/2022/imam_bukhari_shrine.jpg)
ممتاز ریاضی دان، ماہر فلکیات و جغرافیہ محمد بن موسیٰ الخوارزمی، نابغۂ روزگار ماہر ارضیات اور طبعیات دان ابو ریحان البیرونی، ممتاز عالم اور سائنس دان بوعلی سینا اور فلسفی و مؤرخ عمر خیام بھی یہیں کی مٹی تھے۔ جب مذہب اسلام کے ’سنہری دور‘ کا ذکر ہوتا ہے تو ان سب شخصیات کا نام لیا جاتا ہے۔
پاکستان اور انڈیا میں قائم سنی مکتب فکر کی تمام مذہبی تعلیم گاہوں اور مدارس میں امام بخاری اور امام ترمذی کی حدیث کی کتابیں لازمی مضامین کے طور پر پڑھائی جاتی ہے اور علم حدیث کے حوالے سے مستند ہونے کے اعتبار سے امام بخاری کی ’الصحیح البخاری‘ کو سب سے اوپر مانا جاتا ہے۔
بخارا، اسلامی تہذیب کا مرکز
ماضی میں چنگیز خان سمیت کئی حکمرانوں کی دست برد کا نشانہ بننے والا ازبکستان کا شہر بخارا صدیوں سے اسلامی تمدن کا بڑا مرکز شمار ہوتا ہے۔ امام بخاری کا حوالہ تو خیر سب سے نمایاں ہے لیکن اس شہر میں قدیم تاریخی عمارات، یہاں کے بازار، منفرد روایتی کھانے اور ثقافت کے مختلف مظاہر پوری دنیا کے سیاحوں کو اپنی جانب کھینچتے ہیں۔
بخارا کا قدیم شہر جسے ’زندہ میوزیم‘ کہا جاتا ہے، یہ اقوام متحدہ کے عالمی ثقافتی ورثوں کی فہرست میں شامل ہے۔ شاہراہِ ریشم پر واقع ہونے کی وجہ سے یہ شہر علمی، مذہبی، ثقافتی اور تجارتی مرکز کے طور پر جانا جاتا ہے۔
![](/sites/default/files/pictures/March/43881/2022/ark_citadel.jpg)
اس شہر میں بولو حوض مسجد، ماغوکِ عطاری مسجد، مختلف کلیسا، پوئی کلیاں اسکوائر، اسماعیل سامانی کا مقبرہ، شہر میں نصب مشاہیر کے مجسمے، لبِ حوض، بخارہ کا قلعہ ارگ، چشمۂ ایوب، ریلوے سٹیشن بخارا اور چار مینار سمیت بے شمار ایسی جگہیں ہیں جنہیں سیاح نظر انداز نہیں کر سکتے۔
ان تہذیبی ، مذہبی اور ثقافتی مقامات کی وجہ سے ازبکستان میں سیاحت کی انڈسٹری بہت تیزی سے ترقی کر رہی ہے۔
سمرقند کے مقبرے اور مساجد
ازبکستان کا شہر سمرقند بھی بخارا ہی طرح اہم ہے۔ شاہراہ ریشم کے وسط میں واقع اس شہر کو بھی تاریخی مرکز مانا جاتا ہے۔ یہاں کے مقبرے، مدارس، مساجد، مینارے، کلیسا اور یادگاریں اپنی منفرد تاریخ رکھتی ہیں۔ سمرقند شہر میں واقع قدیم ترین بی بی خانم مسجد، قدیم شہر کے آثار، شاہ زندہ کمپلیکس، اور امیر تیمور کا مقبرہ سیاحوں کی توجہ کا مرکز رہتے ہیں۔
![](/sites/default/files/pictures/March/43881/2022/smar_qand_bread.jpg)
امام بخاری، امام ماتریدی، نصیر الدین باصر سمیت کئی تاریخی شخصیات کے مقبرے بھی سرقند میں ہیں۔
اس کے علاوہ سمرقند کی روٹیاں بھی بہت مشہور ہیں۔
پاکستان اور ازبکستان کے سیاسی روابط
ازبکستان کی کئی دہائیوں تک سوویت یونین کے تحت رہنے کے بعد 1991 میں آزاد ہوا۔ اس کے پہلے صدر اسلام کریموف بنے اور جو مسلسل 24 برس تک برسر اقتدار رہے۔ ان کے بعد شوکت مرزا یوف صدر کے عہدے پر فائز ہوئے اور انہوں نے اپنی پالیسیوں کو اپنے پیش رو کی نسبت زیادہ لچکدار اور جامع بنانے کی کوشش کی۔
![](/sites/default/files/pictures/March/43881/2022/islam_krimov_3.jpg)
پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ برس 15 جولائی کو وسط ایشیائی ممالک کی کانفرنس میں شرکت کے لیے ازبکستان کا دو روزہ دورہ کیا تھا۔ اس سے قبل پاکستان کے سابق وزیراعظم نواز شریف بھی نومبر 2015 میں ازبکستان کا دورہ کر چکے ہیں۔
نومبر 1995 میں پاکستان کی وزیراعظم بے نظیر بھٹو نے بھی ازبکستان کا دورہ کیا تھا۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب پاکستان کی حکومت افغانستان میں قائم برہان الدین ربانی کی حکومت کے خلاف طالبان جنگجوؤں کی حمایت کر رہی تھی۔ اس دورے کا مقصد افغانستان کے پڑوسی ممالک کی تائید حاصل کرنا تھا۔
معاہدہ تاشقند ، ایک بڑا حوالہ
ساٹھ کی دہائی میں ازبکستان کے دارالحکومت اور ملک کے سب سے بڑے شہر تاشقند میں پاکستان اور انڈیا کی سیاسی تاریخ کا ایک اہم باب رقم ہوا تھا۔
یہ ذکر ہے 10 جنوری 1966 کے ’معاہدہ تاشقند‘ کا، جس پر اس وقت کے پاکستان کے فوجی آمر صدر جنرل ایوب خان اور اور انڈیا کے وزیراعظم لال بہادر شاستری نے دستخط کیے تھے۔ اس معاہدے کے نتیجے میں انڈیا اور پاکستان کے درمیان 17 روز تک جاری رہنے والی جنگ اپنے اختتام کو پہنچی تھی۔ یہ اس دور کی بات ہے کہ جب موجودہ ازبکستان کے علاقے سوویت یونین کے ماتحت تھے۔
![](/sites/default/files/pictures/March/43881/2022/tashkent_agreement.jpg)
ایک قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ انڈیا کے وزیراعظم لال بہادر شاستری اس معاہدے کے اگلے ہی روز چل بسے تھے۔
پاکستان اور ازبکستان کے تعلقات میں اتار چڑھاؤ
ازبکستان کی سوویت یونین سے آزادی کے بعد اسے تسلیم کرنے والے اولین ممالک میں پاکستان بھی شامل ہے لیکن کئی دہائیوں سے مختلف بحرانوں کے شکار افغانستان کی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات سردمہری کا شکار رہے۔
ازبکستان میں اسلام کریموف کے طویل عہدِ صدارت میں پاکستان اور ازبکستان کے تعلقات میں گرمجوشی نہ ہونے کی بڑی وجہ یہ رہی کہ افغانستان کے حوالے سے دونوں ممالک کا نقطۂ نظر مختلف تھا۔
ازبکستان کے سابق صدر اسلام کریموف کا انتقال اور افغانستان میں طالبان کے پہلے دور کے خاتمے کے بعد سے پاکستان اور ازبکستان کے تعلقات میں بہتری دیکھی جا رہی ہے۔
![](/sites/default/files/pictures/March/43881/2022/nawaz_sharif_in_uzbekistan.jpg)
اس کے علاوہ پاکستان اور ازبکستان دونوں اقوام متحدہ، اسلامی تعاون تنظیم، اکنامک کارپوریشن آرگنائزیشن اور شنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن جیسے اہمیت کے حامل عالمی علاقائی فورمز کے رکن ہیں۔ 2018 کے بعد سے ان دونوں ممالک کے درمیان تجارت میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔
2018 ہی میں دونوں ممالک کے درمیان پہلی بار براہ راست پروازوں کا آغاز ہوا۔ تاشقند سے لاہور کے درمیان یہ پروازیں ازبکستان ائیر لائنز نے شروع کی تھیں۔ بعد میں ان تعطل آ گیا تھا لیکن اب انہیں دوبارہ بحال کرنے کے عزم کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
گو کہ ازبک النسل باشندوں کی بڑی تعداد افغانستان میں آباد ہے لیکن پاکستان میں بھی ان کی قابل ذکر تعداد موجود ہے۔ کچھ رپورٹس کے مطابق اس وقت پاکستان میں اڑھائی لاکھ سے زیادہ ازبک باشندے مقیم ہیں۔ یہ لوگ خاص طور پر سوویت افغان جنگ کے دوران افغانستان سے پناہ گزینوں کے طور پر پاکستان کے شمالی مغرب میں واقع صوبہ خیبر پختون خوا میں آئے تھے۔
![](/sites/default/files/pictures/March/43881/2022/ik_4.jpg)