Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بال آف دی سنچری کرنے والے شین وارن کا کامیابیوں اور تنازعات سے بھرپور کیریئر

شین وارن ٹیسٹ میچز میں سب سے پہلے 700 وکٹیں اور انٹرنیشنل کرکٹ میں مجموعی طور پر ایک ہزار وکٹیں حاصل کرنے والے پہلے بولر تھے (فائل فوٹو: اے ایف پی)
دنیائے کرکٹ میں لیگ سپن بولنگ کو الگ پہچان دینے والے لیجنڈری آسٹریلوی کرکٹر شین وارن 52 سال کی عمر میں انتقال کرگئے ہیں۔ 13 ستمبر 1969 کو آسٹریلیا کی ریاست وکٹوریا کے شہر میلبرن میں پیدا ہونے والے شین وارن ہمیشہ سے شہ سرخیوں میں رہے ہیں۔
سنہ 1992 میں اپنے کیریئر کا آغاز کرنے والے شین وارن نے لیگ سپن بولنگ کی ایک نئی جہت کی بنیاد رکھی۔ وہ اپنی ہاتھ سے گیند بازی نہیں بلکہ جادو کیا کرتے تھے اور یہی وجہ ہے کہ ان کے ’فلپرز‘ اور ’رانگ ونز‘ نے دنیائے کرکٹ کے بڑے بڑے بلے بازوں کو حیرت میں مبتلا کیے رکھا۔ 
جیسے اپنے کیریئر کے اختتام تک وہ اپنی ورائٹی سے بلے بازوں کو ہمیشہ ’سرپرائز‘ دیتے بالکل اسی طرح ان کی موت کی خبر بھی شائقین کرکٹ حیرت میں مبتلا ہیں۔  
شین وارن ٹیسٹ میچز میں سب سے پہلے 700 وکٹیں اور انٹرنیشنل کرکٹ میں مجموعی طور پر ایک ہزار وکٹیں حاصل کرنے والے پہلے بولر تھے، بعد ازاں ان کا یہ ریکارڈ سری لنکا کے متھیا مرلی دھرن نے توڑا۔ 
’بال آف دی سنچری‘ کا اعزاز 
سنہ 1992 میں شین وارن کو صرف 7 فرسٹ کلاس میچز کھیلنے کے بعد ہی آسٹریلیا کی ٹیسٹ ٹیم میں شامل کرلیا گیا تھا، تاہم کیریئر کے ابتدا میں انڈیا اور سری لنکا کے خلاف دو ٹیسٹ سیریز کے دوران وہ نمایاں کارکردگی نہ دکھا سکے اور انہیں ٹیم سے ڈراپ کردیا گیا۔ 
سنہ 1993 میں انگلینڈ کی سرزمین پر کھیلی جانے والی ایشز سیریز میں انہیں دوبارہ ٹیم میں شامل کیا گیا تو انہوں نے اس سیریز کی پہلی گیند پر انگلینڈ کے مایہ ناز بلے باز مائیک گیٹنگ کو ایسی جادوئی گیند کروائی جو آج تک کرکٹ کی تاریخ میں ’بال آف دی سنچری‘ کے نام سے جانی جاتی ہے۔
مانچسٹر میں کھیلے گئے اس میچ مائیک گیٹنگ بلے بازی کے لیے آئے تو کپتان ایلن بارڈر نے گیند شین وارن کو تھما دی۔ انہوں نے ’اوور دی وکٹ‘ پہلی گیند پھینکی جو لیگ سٹمپ سے بھی باہر ٹپا کھانے کے بعد آف سٹمپ کی بیلز پر جالگی۔ اس گیند نے لیگ سپن کے شعبے کو ایک نئی جہت سے روشناس کروا دیا۔ 

اُن کی مائیک گیٹنگ کو کرائی گئی جادوئی گیند تاریخ میں ’بال آف دی سنچری‘ کے نام سے جانی جاتی ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

 اس سیریز میں شین وارن نے 6 میچوں میں 34 کھلاڑی آؤٹ کر کے سب سے زیادہ وکٹیں حاصل کرنے کا بھی اعزاز حاصل کیا۔ اسی سال 71 وکٹیں حاصل کر کے وہ ایک سال میں سب سے زیادہ وکٹیں حاصل کرنے والے سپنر بن گئے اور اس کے بعد انہوں نے پیچھے مُڑ کر نہیں دیکھا۔  
ایک متنازع کیریئر  
شہرہ آفاق لیگ سپنر اپنے کیریئر میں متعدد تنازعات کا بھی شکار رہے۔ 1994 میں آسٹریلیا کی کرکٹ ٹیم دورہ پاکستان پر آئی تو کراچی میں کھیلا گیا پہلا ٹیسٹ پاکستان نے ڈرامائی انداز میں ایک وکٹ سے اپنے نام کیا۔ اس ٹیسٹ میچ میں پاکستان 315 رنز کے ہدف کے تعاقب میں نو وکٹیں گنوا بیٹھا تھا جبکہ جیت کے لیے ابھی 53 رنز درکار تھے۔
اس میچ میں انضمام الحق اور مشتاق احمد کے درمیان آخری وکٹ کے لیے 57 رنز کی شراکت قائم ہوئی۔ پاکستان کی اس جیت پر اس وقت شکوک و شبہات کا اظہار کیا جانے لگا جب شین وارن ہی کی گیند پر وکٹ کیپر ایئن ہیلی نے انضمام الحق کا سٹمپ کا موقع ضائع کردیا اور گیند باؤنڈری لائن پار کرگئی اور پاکستان نے ایک وکٹ سے یہ میچ اپنے نام کرلیا۔  

 شین وارن اور مارک وا پر مبینہ طور پر پیسے لے کر پچ اور ٹیم سلیکشن کی معلومات بُکی کو دینے پر جرمانے عائد کیے گئے تھے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

اس سیریز کے بعد شین وارن اور آسٹریلیا کے دو دیگر کھلاڑیوں نے پاکستان کے کپتان سلیم ملک پر الزام عائد کیا کہ انہوں نے خراب کارکردگی دکھانے کے لیے انہیں معاوضے کی پیش کش کی تھی۔ ان الزامات پر پاکستان کرکٹ بورڈ نے فخرالدین جی ابراہیم کی سربراہی میں ایک تحقیقاتی کمیٹی قائم کی تھی لیکن آسٹریلوی کھلاڑیوں نے اس تحقیقاتی کمیٹی کے سامنے کوئی بیانات ریکارڈ نہیں کرائے اور تحقیقاتی کمیٹی نے سلیم ملک کو تمام الزامات سے بری کردیا۔  
بعد ازاں ان ہی الزامات پر پی سی بی نے جسٹس ملک عبدالقیوم کی سربراہی میں عدالتی کمیشن مقرر کیا جس میں آسٹریلوی کھلاڑیوں نے پیش ہو کر اپنے بیانات ریکارڈ کروائے جبکہ شین وارن نے اپنے نمائندے کے ذریعے اپنا بیان ریکارڈ کرایا۔ اسی کمیشن نے بعد ازاں سلیم ملک پر تاحیات پابندی لگانے کی سفارش کی تھی اور وسیم اکرم اور چند دیگر کھلاڑیوں پر جرمانے عائد کیے تھے۔  
سنہ 1998 میں آسٹریلوی کرکٹ بورڈ نے تصدیق کی تھی کہ انہوں نے شین وارن اور مارک وا پر 1994 میں دورہ سری لنکا کے دوران مبینہ طور پر پیسے لے کر پچ اور ٹیم سلیکشن کی معلومات ایک انڈین بُکی کو دینے پر جرمانے عائد کیے تھے۔ آسٹریلوی کرکٹ بورڈ نے یہ جرمانے 1995 میں کیے تھے تاہم 1998 تک یہ بات خفیہ رکھی گئی تھی۔  

سنہ 2003 کے ورلڈ کپ سے قبل ان کا ڈوپ ٹیسٹ مثبت آنے پر انہیں ایونٹ میں شرکت سے روک دیا گیا تھا (فائل فوٹو: اے ایف پی)

سنہ 1999 کے ورلڈ کپ کے آغاز سے قبل شین وارن نے سری لنکن کپتان ارجنا راناٹنگا کے بارے میں ایک انٹرویو کے دوران متنازع گفتگو کی تھی جس کی پاداش میں ان پر دو میچز کی پابندی عائد کی گئی تھی۔  
سنہ 2000 میں آسٹریلوی کرکٹ بورڈ نے انہیں ایک خاتون نرس کو ٹیلی فون پر ہراساں کرنے کے الزم میں ٹیم کی نائب کپتانی سے ہٹا دیا تھا۔  
سنہ 2003 کے ورلڈ کپ کے آغاز سے قبل ان کا ڈوپ ٹیسٹ مثبت آنے پر آئی سی سی نے انہیں ایونٹ میں شرکت سے روک دیا تھا، بعد ازاں آسٹریلوی کرکٹ بورڈ نے ان پر ایک سال تک کرکٹ کھیلنے پر پابندی عائد کردی تھی۔ 
سنہ 2013 میں بگ بیش لیگ کے دوران ویسٹ انڈیز کے کھلاڑی مارلن سیمولز کے ساتھ جھگڑا کرنے اور امپائر کے فیصلے کے خلاف ردعمل دینے پر انہیں جرمانے اور ایک میچ کی پابندی کا سامنا کرنا پڑا۔ 
سنہ 2008 میں بین الاقوامی کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے انڈین پریمیئر لیگ اور بیگ بیش لیگ میں بھی شرکت کی، تاہم 2013 کے بعد انہوں نے کرکٹ سے مکمل طور پر ریٹائرمنٹ لینے کا فیصلہ کرتے ہوئے بطور کمنٹیٹر اپنے کیریئر کا آغاز کیا۔ انہوں نے 2021 کی ایشز سیریز کے دوران بھی بطور کمنٹیٹر فرائض سرانجام دیے۔  

شین وارن نے 2003 میں شین وارن فاؤنڈیشن کی بنیاد رکھی جس کا مقصد شدید بیمار اور نادار بچوں کی مدد کرنا تھی (فائل فوٹو: اے ایف پی)

شین وارن کے فلاحی کام 
شین وارن نے فلاحی کاموں کے لیے 2003 میں شین وارن فاؤنڈیشن کی بنیاد رکھی جس کا مقصد شدید بیمار اور نادار بچوں کی مدد کرنا تھی۔ اس فاؤنڈیشن نے 13 سال تک فلاحی کاموں میں حصہ لیا اور متعدد بچوں کو مالی امداد فراہم کی۔ 
سنہ 2004 میں آنے والی سونامی نے سری لنکا کو بری طرح متاثر کیا۔ شین وارن نے 2005 میں سری لنکا میں اپنی فاؤنڈیشن کے تحت امداد فراہم کی اور وہ خود امدادی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے لیے سری لنکا بھی گئے۔
انہوں نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ’وہ متھیا مرلی دھرن سے اپنا کیا ہوا وعدہ پورا کرنے جارہے ہیں۔ کرکٹ کے میدان میں وہ میرے حریف ہیں لیکن میں نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ سری لنکا کی اس مشکل وقت میں جتنی ممکن مدد ہوسکی کروں گا اور آج میں اپنا وعدہ پورا کرنے جارہا ہوں۔‘ 
جادوئی سپنر ہمیشہ سے نوجوان کرکٹرز کی بھی حوصلہ افزائی کرتے تھے اور انہوں نے پاکستان کے لیگ سپنر یاسر شاہ کو دنیا کا ایک بہتر لیگ سپنر بھی قرار دیا تھا۔  

شیئر: