محکمہ تعلیم خیبر پختونخوا نے دعویٰ کیا ہے کہ صوبہ بھر بشمول قبائلی اضلاع کے سکولوں میں داخلے بڑھے ہیں جبکہ دوسری جانب ایک ایسا سروے سامنے آیا ہے کہ صوبے کے 40 لاکھ سے زائد بچے سکول نہیں جاتے۔
صوبائی حکومت کے مطابق محکمہ تعلیم کے مختلف منصوبوں کے تحت قبائلی اضلاع میں 25 ہزار سے زائد طلبہ اور طالبات نے داخلے لیے۔
دوسری جانب بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام اور ایلیمنٹری اینڈ سیکنڈری سکولوں کے اساتذہ کا ایک سروے ہوا ہے، جس میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ صوبے میں ضم ہونے قبائلی اضلاع میں 30 لاکھ بچے سکولوں سے باہر ہیں جس میں 74 فیصد لڑکیاں جبکہ 38 فیصد سے زائد لڑکے شامل ہیں۔
اردو نیوز نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ کیا واقعی صوبے کا تعلیمی نظام بہتر ہوا ہے اور داخلہ اندراج میں اضافہ ہوا ہے یا نہیں۔
محکمہ تعلیم کی رپورٹ کے مطابق صوبائی حکومت نے بندوبستی اضلاع کے ساتھ ساتھ قبائلی اضلاع میں داخلہ اندراج میں اضافہ اور ڈراپ آؤٹ ریٹ کو کم کرنے کے لیے سیکنڈ شفٹ شروع کی ہے اور ایک ہزار ایک سو 23 سکولوں کو سیکنڈ شفٹ میں شامل کیا گیا ہے۔
سیکنڈ شفٹ کے ذریعے چھ ہزار نئے اساتذہ کو روزگار کے مواقع بھی فراہم کیے جا رہے ہیں۔
محکمہ تعلیم کے مطابق خیبر پختونخوا میں تین ہزار 500 سے زائد گرلز سکولز میں ایک لاکھ کے قریب بچیاں زیرتعلیم ہیں جبکہ دوسری شفٹ کے آغاز کے ساتھ ’دستوری پختونخوا’ اور ’رحمت اللعالمین‘ جیسے کئی اور ماہانہ وظائف بھی دیے جا رہے ہیں جس کی وجہ سے قبائلی اضلاع میں طلبہ کی تعداد میں 25 ہزار کا اضافہ ہوا ہے۔
دوسری طرف بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام اور ایلیمنٹری اینڈ سیکنڈری سکولوں کے اساتذہ کے سروے میں بتایا گیا ہے کہصوبے میں 40 لاکھ سے زائد بچے سکول نہیں جاتے، جبکہ ضم ہونے والے قبائلی اضلاع میں 30 لاکھ سے زائد بچے سکول سے باہر ہیں۔
سروے کے مطابق سال 2018 میں صوبے کے بندوبستی اضلاع میں سکولوں سے باہر بچوں کی تعداد 20 لاکھ سے زائد تھی جو گذشتہ سال 2021 میں بڑھ کر 30 لاکھ سے زائد ہو گئی ہے۔
اس حوالے سے وزیر تعلیم شہرام خان ترکی نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’صوبے میں ڈراپ آؤٹ ریشو کم کرنے اورسکولوں سے باہر بچوں کو داخل کرنے کے لیے صوبائی حکومت نے مختلف منصوبے شروع کیے ہیں، جن میں سیکنڈ شفٹ بھی شامل ہے۔ جس سے وہ بچے بھی تعلیم کی طرف آئے جو کسی وجہ سے صبح کے وقت سکول نہیں جا پا رہے تھے‘
شہرام ترکئی کے مطابق ’جن سکولوں میں بچوں کی تعداد زیادہ ہو، وہاں نئے بنائے جا رہے ہیں جبکہ اگر سکول دور ہوں، جو زیادہ تر بچیوں کے تعلیم چھوڑنے کی وجہ ہوتی ہے، اس کا حل یہ کیا جا رہا ہے کہ قریبی سکولوں کو اپ گریڈ کیا جا رہا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’صوبے کے مختلف سکولوں کو سیکنڈ شفٹ کے تحت پرائمری کو مڈل، مڈل کو ہائی اور ہائی کو ہائر سیکنڈری کا درجہ دیا گیا ہے جس کی وجہ سے داخلوں میں اضافہ دیکھنے کو ملا ہے‘
وزیر تعلیم کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’بچوں کو مختلف منصوبوں کے تحت ماہانہ وضائف بھی دیے جا رہے ہیں تاکہ ان کے والدین کی معاونت ہو سکے۔‘
محکمہ تعلیم کے مطابق اس وقت خیبر پختونخوا کے سرکاری سکولوں میں بچوں کی تعداد 42 لاکھ کے قریب ہے، جبکہ ایک لاکھ 30 ہزار بچیاں کمیونٹی سکولز میں زیر تعلیم ہیں۔ اس طرح حکومتی تعاون سے پرائیویٹ سکولوں میں ایک لاکھ 10 ہزار طلبا و طالبات واوچرز سکیم تحت زیر تعلیم ہیں۔
اسی طرح دہشت گردی کی کارروائیوں میں تباہ ہونے 75 سکولوں کی دوبارہ تعمیرکا کام جاری ہے جبکہ جزوی طور پر متاثر ہونے والے 325 سکولوں کی بحالی کے لیے بھی فنڈز جاری کیے گئے ہیں۔
تین سالوں میں قبائلی اضلاع میں 308 نئے سکول تعمیر کیے گئے ہیں۔
ضلع خیبر سے تعلق رکھنے والے سماجی کارکن معروف شاہ آفریدی نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’تعلیم کے حوالے سے حکومت تو ہر سال آگاہی مارچ کرنے خیبر آتی ہے، لیکن اس کے علاوہ یہاں پر تعلیمی نظام ویسا ہی ہے جیسا پہلے ہوا کرتا تھا۔‘
انہوں نے بتایا کہ '20 سے 25 فیصد بچیاں سکول جاتی ہیں، جبکہ 70 سے 75 فیصد نہیں جاتیں، حکومت نے سکولوں میں سیکنڈ شفٹ کا آغاز تو کر دیا ہے لیکن یہاں صورت حال ہے کہ سکول جانے والے بچوں کو بھی نکالا جا رہا ہے۔
ان کے مطابق ’لوگ بچوں کو سکول سے نکالنے کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ اتنے سال سکول جانے کے باوجود بھی اپنا نام تک نہیں لکھ سکتے، اس لیے سکول بھجوانے کا فائدہ ہی کیا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’حکومت کو چاہیے کہ سکولوں میں اساتذہ کو میرٹ پر بھرتی کرے اور ان کی کارکردگی کا جائزہ بھی لیا جاتا رہے، سہولتیں دینا ابھی بات ہے لیکن اگر معیاری تعلیم نہ ہو تو پھر ان کا کوئی فائدہ نہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ’تمام ضم اضلاع کا مسئلہ یہ ہے کہ سکول تو ہیں لیکن اساتذہ نہیں اور اگر ہیں بھی تو معیاری تعلیم نہیں دی جا رہی۔‘