’فوج کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں، یہ ایسا ہی ہے اور ایسا ہی رہے گا‘
جمعرات 10 مارچ 2022 19:11
پاکستان کی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ(آئی ایس پی آر) کے سربراہ میجر جنرل بابر افتخار نے کہا ہے کہ فوج کا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ یہ ایسا ہی ہے اور ایسا ہی رہے گا۔
’میں سمجھتا اس پر غیر ضروری گفتگو یا اندازے نہ لگائے جائیں، یہی ہم سب کے لیے اچھا ہے۔ میں اس پر مزید بات نہیں کروں گا۔‘
راولپنڈی میں پریس کانفرنس سے خطاب میں ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ نومارچ کو ایک چیز انڈیا سے پاکستانی فضائی حدود میں داخل ہوئی۔ پاکستان ائیرفورس نے اس کی مکمل مانیٹرنگ گی۔
پریس کانفرنس کے دوران ائیر وائس مارشل طارق ضیا نے اس واقعے کے بارے میں ملٹی میڈیا بریفنگ دی اور بتایا کہ یہ چیز میاں چنوں کے قریب گری جس سے سویلین کا کچھ نقصان بھی ہوا۔
انہوں نے اس واقعے تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ ’ہم نے نو مارچ کو شام چھ بج کر 33 منٹ ایک انڈین بارڈر کے 104 کلومیٹر اندر ایک چیز کو مانیٹر کیا۔ یہ چیز 40 ہزار فٹ بلندی پر اڑ رہی تھی۔ یہ انتہائی تیز رفتاری سے سفر کر رہی تھی۔‘
’یہ چیز 70 سے 80 کلومیٹر سفر کے بعد دائیں جانب مڑی اور اسی بلندی اور رفتار کے ساتھ شمالی مغرب میں پاکستان کی جانب بڑھنا شروع ہو گئی۔ پاکستان ائیر فورس اس چیز کو مسلسل مانیٹر کر رہی تھی۔‘
’اس کے بعد اس چیز نے انٹرنیشنل سرحد عبور کی اور یہ بھاولپور کے جنوب سے پاکستان میں داخل ہوئی۔ اور پھر یہ شام چھ بج کر پچاس منٹ پر میاں چنوں کے قریب غائب ہو گئی۔‘
’اس چیز نے پاکستان کی فضائی حدود میں 140 کلومیٹر تک کا فاصلہ طے کیا۔ اس نے شروع سے زمین پر گرنے تک مجموعی طور پر چھ منٹ 46 سیکنڈز دورانیے کا سفر کیا جبکہ یہ پاکستانی حدود میں تین منٹ 44 سیکنڈز تک رہی۔‘
ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ پاکستان فضائی حدود کی اس خلاف ورزی کی مذمت کرتا ہے۔
’اس واقعے کی جو بھی وجہ ہے اس کی وضاحت انڈیا کو دینی ہوگی۔ ہم اس پر کوئی اشتعال انگیز بیان نہیں دیں گے۔‘
’یہ ایک زمین سے لانچ کیا گیا سپرسونک فلائنگ اوبجیکٹ تھا لیکن یہ غیرمسلح تھا۔‘
یہ کیا تھا ہم اس کے بارے میں کچھ کہہ نہیں سکتے۔ اس کی وضاحت انڈیا کو کرنی ہے۔
سیاسی صورتحال میں فوج کے کردار سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’کوئی کیا کہہ رہا ہے۔ میں نے بار بار یہ کہا ہے کہ اگر کوئی یہ کہہ رہا ہے کہ ہماری طرف سے کچھ ہو رہا ہے تو اس کا کوئی ثبوت ہو گا۔ جو لوگ ایسی بات کر رہے ہیں ، ان سے اس بارے میں پوچھا جائے۔ میں تو اس کا بار بار بار جواب دے چکا ہوں۔‘