وزیراعظم عمران خان کے خلاف اپوزیشن کی جانب سے جمع کرائی جانے والی عدم اعتماد کی تحریک پر اجلاس بلانے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ امکان ہے کہ تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ 28 مارچ کو ہوگی تاہم اس سے ایک روز قبل حکمران جماعت نے پارلیمنٹ کے باہر ڈی چوک میں سیاسی جلسہ کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔
دوسری جانب پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ(پی ڈی ایم) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے بھی 23 مارچ کو لانگ مارچ کا اعلان کر دیا۔
انہوں نے پیر کی شام میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’23 مارچ کو ملک بھر سے قافلے اسلام آباد کی طرف روانہ ہوں گے اور 24 مارچ کو اسلام آباد پہنچیں گے۔ اسلام آباد پہنچ کر فیصلہ ہوگا کہ کب تک اسلام آباد میں رہنا ہے۔‘
اس سے قبل وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کے مطابق اپوزیشن تحریک عدم اعتماد کے لیے پارلیمنٹ ہاؤس میں جب جائے گی، تو پارلیمنٹ کے باہر تحریک انصاف کے کارکنان کے بیچ میں سے ہو کر گزرنا پڑے گا، تحریک عدم اعتماد کی کارروائی کے بعد بھی جب اس کے ارکان پارلیمنٹ سے نکلیں گے تو انہیں کارکنوں کا سامنا ہوگا۔
اس صورت حال پر اپوزیشن کی جماعتوں نے بھی سر جوڑ لیے ہیں۔
مزید پڑھیں
-
شہباز شریف کے ساتھ ملاقات کسی بھی وقت ہوسکتی ہے: پرویز الہیNode ID: 652411
اس حوالے سے اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ (ن) کا اجلاس پیر کو لاہور میں منعقد ہوا، جس کی صدارت حمزہ شہباز نے کی۔ اجلاس میں پارٹی کی حکمت عملی پر غور ہوا۔
پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی ترجمان عظمٰی بخاری نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’ہم نے اس حوالے سے تیاری مکمل کر لی ہے، حکومت بھلے جتنے مرضی بندے پارلیمنٹ کے باہر کھڑے کرے، اجلاس میں فیصلہ ہوا ہے کہ اپوزیشن اپنے تمام 172 اراکین کے ساتھ اکٹھے پارلیمنٹ کی عمارت میں داخل ہوگی۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہمارے کارکن ان تمام اراکین اسمبلی کی حفاظت کر رہے ہوں گے اور تمام اراکین ایک ہی وقت میں پارلیمنٹ کی عمارت میں داخل ہوں گے۔ اگر اس دوران حکمران جماعت نے کسی بھی قسم کی شرارت کی تو حالات کی ذمہ دار صرف حکومت ہو گی۔‘

عظمیٰ بخاری کے مطابق ’پنجاب میں پارٹی کے صدر رانا ثنا اللہ نے پنجاب کے تمام کارکنوں کو تیار رہنے کا حکم دیا ہے اور اگر پارٹی اسلام آباد جانے کا فیصلہ کرتی ہے تو کارکنوں کو فوری اطلاع دی جائے گی، تاہم فی الوقت ہمارا فیصلہ یہی ہے کہ تمام اراکین اسمبلی ایک ہی وقت میں پارلیمنٹ کی عمارت میں داخل ہوں اور ان کے ارد گرد حفاظت کے لیے کارکن موجود رہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ہمیں پہلے سے ہی اندازہ تھا کہ وزیراعظم کرسی بچانے کے لیے ملک کو عدم استحکام کی طرف لے جانے کی کوشش کریں گے، یہی وجہ ہے کہ آج تمام لوگوں کی ذمہ داریاں لگا دی گئی ہیں اور یہ بات فائنل کر لی ہے کہ ارکان کو کہاں پر اکٹھا کیا جائے گا اور قافلے کی صورت میں پارلیمنٹ پہنچایا جائے گا۔‘
عظمٰی بخاری نے مزید کہا کہ ’مسلم لیگ (ن) ابھی تک صرف اپنے طور پر تیاریاں کر رہی ہے، تاہم اگر دیگر جماعتوں بھی چاہیں تو مشترکہ حکمت عملی بھی اپنائی جا سکتی ہے لیکن پارٹی قیادت نے ہمیں تیار رہنے کا حکم دیا ہے اور تیاریاں شروع کر دی گئی ہیں، اور تمام ارکان کے علاوہ مستقبل کے ٹکٹ ہولڈرز کو بھی ہدایات پہنچا دی گئی ہیں کہ وہ کسی بھی صورتحال سے نمٹنے کے لیے تیار رہیں۔‘

جب ان سے پوچھا گیا کہ ’اگر اپوزیشن بھی ویسا ہی رویہ اپنائے گی تو اس سے تو عدم استحکام اور تشدد کا خطرہ پیدا نہیں ہو گا؟‘ اس کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’شروعات کرنے والے ہم نہیں، عدم اعتماد پارلیمنٹ میں لے کر آنا ہمارا آئینی اور قانونی حق ہے جب کہ اپوزیشن نے ایسا کوئی اعلان بھی نہیں کیا کہ وہ جتھے لے کر پارلیمنٹ کے باہر پہنچے گی۔ جب ہم کسی بھی طریقے سے غیرقانونی اور غیرآئینی کام نہیں کر رہے اور حکومت آئینی حق کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کے لیے دھمکیوں پر اتر آئے تو ہمارے پاس کوئی اور آپشن نہیں رہ جاتا، سوائے اس کے کہ حکومت کو اسی زبان میں جواب دیا جائے، صورت حال بگڑ جانے کا خدشہ ہو سکتا ہے تاہم اس کی ذمہ داری شروعات کرنے والوں پر ہو گی۔‘
صرف مسلم لیگ (ن) لیگ ہی نہیں اپوزیشن کی دیگر جماعتوں نے بھی 28 مارچ کے لیے نہ صرف تیاریاں شروع کر دی ہیں بلکہ اپنے کارکنوں کو کسی بھی صورتحال سے نمٹنے کے لیے تیار رہنے کا حکم بھی دے دیا ہے۔
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے ترجمان اسلم غوری نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا ’ہماری جماعت کسی بھی صورتحال کے لیے مکمل طور پر تیار ہے اور مولانا فضل الرحمن نے تمام کارکنوں کو اس حوالے سے ہدایات بھی جاری کی ہیں۔‘
