Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کسی رکن اسمبلی کو ہجوم کے ذریعے ووٹ ڈالنے سے نہیں روکا جائے گا: اٹارنی جنرل

پاکستان کی سپریم کورٹ میں آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لیے دائر صدارتی ریفرنس اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی درخواست پر سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ ’سیاسی جماعتوں کو آئینی اور قانونی طریقہ سے پارلیمنٹ میں اپنی طاقت دکھانی چاہیے۔‘
پیر کو سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس سپریم کورٹ نے کہا کہ ’ہم چاہتے ہیں تمام سیاسی جماعتیں اپنے ورکرز کو بتائیں کہ ہمیں آئین میں موجود طریقہ کار کے مطابق اس عمل کو آگے بڑھانا ہے۔ سندھ ہاؤس میں جو ہوا ہے اس سے ارکان اسمبلی کے ووٹنگ کے حق متاثر ہوا ہے۔‘
چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ ’آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لیے دائر حکومتی ریفرنس کی سماعت کے لیے لارجر بینچ تشکیل دیا جائے گا۔‘
اٹارنی جنرل  نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ اسمبلی اجلاس کے موقع پر کوئی جھتہ اسمبلی کے باہر نہیں ہو گا۔
’کسی رکن اسمبلی کو ہجوم کے ذریعے نہیں روکا جائے گا۔‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ کئی سیاسی جماعتوں نے بیانات دیے ہیں، پولیس اور متعلقہ اداروں کو احکامات جاری کررہے ہیں۔
’عوام کو اسمبلی اجلاس کے موقع پر ریڈزون میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ہو گی۔‘
یاد رہے کہ وفاقی حکومت نے پیر ہی کو سپریم کورٹ میں آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لیے صدارتی ریفرنس دائر کیا تھا۔ اٹارنی جنرل آف پاکستان خالد جاوید خان نے صدر کی منظوری کے بعد پیر کو صدارتی ریفرنس دائر کیا۔
تحریک انصاف کی حکومت نے چند روز قبل منحرف ہو جانے والے اپنے ارکانِ اسمبلی کے مواخذے کے لیے یہ ریفرنس دائر کیا۔
سماعت کے دوران اپوزیشن لیڈر اور مسلم لیگ نواز کے صدر شہباز شریف، پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان اور چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری بھی سپریم کورٹ میں موجود تھے۔
سپریم کورٹ میں دائر صدارتی ریفرنس میں کون سے سوالات پوچھے گئے ہیں؟ 
اردو نیوز کے پاس دستیاب مسودے کی کاپی کے مطابق وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ سے 4 سوالات پوچھے ہیں جس پر عدالت عظمیٰ سے تشریح مانگی گئی ہے۔ 
وفاقی حکومت کی جانب سے دائر صدارتی ریفرنس میں پوچھا گیا ہے کہ کیا آرٹیکل 63 اے کے تحت پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دینے سے ارکان کو نہیں روکا جاسکتا؟
پارٹی پالیسی سے انحراف کرنے والے ممبر کا ووٹ شمار ہوگا یا نہیں؟ 

صدارتی ریفرنس میں پوچھا گیا ہے کہ کیا پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دینے سے ارکان کو نہیں روکا جاسکتا؟ (فائل فوٹو: قومی اسمبلی)

وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ سے رائے طلب کرتے ہوئے پوچھا ہے کہ کیا پارٹی پالیسی کے خلاف جانے والوں کو تاحیات نااہل قرار دیا جائے گا یا نہیں؟ آرٹیکل 63 اے کے تحت نااہلی کی مدت کیا ہوگی؟
وفاقی حکومت نے فلور کراسنگ یا ہارس ٹریڈنگ روکنے سے متعلق مزید اقدامات پر بھی تجاویز مانگی ہیں۔ ​
پی ٹی آئی کے سیکریٹری جنرل اور وفاقی وزیر اسد عمر نے اتوار کو اپنی ٹویٹ میں کہا تھا کہ ’یہ ریفرنس کل پیش کیا جائے گا۔ اس کیس سے پاکستان کی سیاست میں ضمیر بیچ کر لوٹا بننے کا گھناؤنا کاروبار ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائے گا۔‘
سنیچر کو حکمراں جماعت اور اپوزیشن کی جانب سے اسلام آباد میں جلسوں کے اعلان پر سپریم کورٹ نے نوٹس لیا تھا۔ 
اسلام آباد میں امن و امان برقرار رکھنے کی سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی درخواست کی سنیچر کو ہونے والی سماعت میں عدالت نے کہا تھا کہ ’یہ کوئی ازخود نوٹس نہیں، عدالت کے سامنے ایک درخواست موجود ہے۔‘

حکومتی ریفرنس پر سماعت کے دوران اپوزیشن قائدین بھی سپریم کورٹ میں موجود تھے (فائل فوٹو: مسلم لیگ ن)

دوسری جانب اتوار کو مالا کنڈ کی تحصیل درگئی میں جلسے سے خطاب میں وزیراعظم عمران خان نے کہا تھا کہ ’میرے جو ایم این ایز غلطی کر بیٹھے ہیں، انہیں معاف کر دوں گا، واپس آجائیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’پارٹی کا سربراہ باپ کی طرح ہوتا ہے، میں باپ کی طرح ہوں، باپ اپنے بچوں کی غلطیاں معاف کردیتا ہے۔ اپنے بچوں کے مستقبل کی خاطر یہ غلطی نہیں کرنا۔‘
خیال رہے کہ 19 مارچ کو تحریک انصاف نے منحرف ہونے والے 14 اراکین قومی اسمبلی کو نوٹس جاری کیے تھے اور انہیں پارٹی چیئرمین عمران خان کے سامنے پیش ہونے کی ہدایت کی تھی۔
پی ٹی آئی کی جانب سے نور عالم خان، افضل ڈھانڈلا، نواب شیر وسیر، راجا ریاض، احمد حسین ڈیہڑ، قاسم نون، غفار وٹو، عامر طلال گوپانگ اور باسط سلطان کو نوٹسز جاری کیے گئے۔
ان کے علاوہ وجیہہ اکرام، رمیش کمار، نزہت پٹھان اور ریاض مزاری کو بھی نوٹس جاری ہوئے تھے۔

شیئر: