Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ملک بھر سے قافلے اسلام آباد کی جانب رواں دواں، حکومت کے اتحادیوں کے ساتھ مذاکرات

مریم نواز اور حمزہ شہباز کی قیادت میں مارچ کا آغاز سنیچر کی دوپہر لاہور سے ہوا (فوٹو اے ایف پی)
پاکستان میں سیاسی گہما گہمی اور  سیاسی گرمی اس وقت اپنی بلندیوں پر ہے جس میں آنے والے دنوں میں مزید اضافہ ہونے کا امکان ہے۔ حکومت ایک طرف بڑے جلسے کی تیاریوں میں مصروف ہے تو دوسری طرف اس کے اپنے اتحادیوں کے ساتھ مذاکرات کے ادوار جاری ہیں۔  
 اپوزیشن بھی اپنے نمبرز پورے کرنے کے دعوے کے ساتھ عوامی طاقت کا مظاہرہ کرنے اسلام آباد پہنچ رہی ہے۔  
ہفتے اور اتوار کی درمیانی رات، اتوار کا دن اور پھر سوموار کو اسلام آباد میں بڑے سیاسی اکٹھ ہوں گے, جبکہ سوموار کو قومی اسمبلی کا فیصلہ کن اجلاس بھی دوبارہ شروع ہوگا۔   
پاکستان تحریک انصاف اپنی حکومت بچانے اور اپنے اتحادیوں کو اپنے ساتھ رکھنے کے لیے ایڑھی چوٹی کا زور لگاتے ہوئے فائنل راونڈ کے لیے میدان میں ہے۔ 
شاہ محمود قریشی کا فائنل اوور 
تحریک انصاف کے وائس چیئرمین اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور او آئی سی وزرائے خارجہ کانفرنس سے فراغت پانے کے بعد وزیر اعظم کے خصوصی پیغام کے ساتھ اپنے اتحادیوں کو منانے کے مشن پر ہیں۔ 
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی قیادت میں تحریک انصاف کے وفد نے ہفتے کی شام پارلیمنٹ لاجز میں ایم کیو ایم کے وفد سے ملاقات کی۔ 24 گھنٹوں میں ایم کیو ایم اور حکمران جماعت کے درمیان ہونے والی یہ دوسری ملاقات ہے۔  
ایم کیو ایم پاکستان کی جانب سے ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی، عامر خان، بیرسٹر فروغ نسیم، وسیم اختر سمیت دیگر رہنما شریک ہیں، جبکہ پی ٹی آئی کی طرف وفاقی وزراء شاہ محمود قریشی، اسد عمر اور پرویز خٹک سمیت دیگر شامل تھے۔
وفاقی وزراء کی جانب سے عدم اعتماد کی تحریک کے حوالے سے اتحادیوں سے تعاون مانگا گیا، جبکہ ایم کیو ایم پاکستان کی جانب سے بلدیاتی نظام سمیت سندھ کے شہری علاقوں کے مسائل کے حل پر زور دیا گیا۔ 
ایم کیو ایم پاکستان کے مطابق ابھی تک فیصلہ نہیں کیا ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان عدم اعتماد کی تحریک میں اپوزیشن کو سپورٹ کرے گی یا نہیں۔ 
 متحدہ کے ایک رہنما کا کہنا ہے کہ ’ایم کیو ایم پاکستان وفاقی حکومت میں تحریک انصاف کی اتحادی ہے۔ ہم عوام کے بنیادی مسائل حل کرنے کے لیے کوشاں ہیں. حکومت یا اپوزیشن کا ساتھ دینے کا فیصلہ اراکین رابطہ کمیٹی سے مشاورت کے بعد اتوار کی شب یا سوموار کو کریں گے۔‘

چوہدری شجاعت کو اعتماد میں لینے کے بعد دونوں جماعتوں کے درمیان اسلام آباد میں میٹنگ ہوگی (فوٹو ق لیگ)

دوسری جانب شاہ محمود قریشی کے دفتر سے جاری بیان کے مطابق ایم کیو ایم کے ساتھ ملاقات مفید رہی ہے اور دونوں اتحادیوں نے موجودہ سیاسی صورت حال میں رابطے جاری رکھنے پر اتفاق کیا ہے۔  
اس سے قبل ہفتے کو وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور وزیر دفاع پرویز خٹک مسلم لیگ ق کی قیادت سے ملاقات کے لیے اسلام آباد سے لاہور گئے تھے جہاں انہوں نے پرویز الٰہی، طارق بشیر چیمہ اور مونس الٰہی سے ملاقات کی تھی۔  
اس ملاقات کے دوران ق لیگ کی جانب سے ملکی و سیاسی امور میں اتحادیوں کو اعتماد میں نہ لینے، ق لیگ کے ارکان کے ساتھ اپوزیشن جیسا رویہ رکھنے سمیت کئی امور پر حکومتی وفد سے گلے شکوے کیے۔ 
اس ملاقات کے حوالے جاری اعلامیے کے مطابق دونوں جماعتوں کے درمیان چوہدری شجاعت کو اعتماد میں لینے کے بعد اسلام آباد میں میٹنگ ہوگی۔ جس کے لیے ابھی دن اور وقت کا تعین نہیں ہوا۔  
اس کے علاوہو وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اسد عمر اور وزیر دفاع پرویز خٹک پر مشتمل حکومتی وفد نے بلوچستان عوامی پارٹی کی قیادت سے بھی ملاقات کی۔    
اس ملاقات میں بلوچستان عوامی پارٹی کے پارلیمانی رہنما نوابزادہ خالد مگسی، وفاقی وزیر زبیدہ جلال، سردار اسرار ترین، میر احسان اللہ ریکی اور روبینہ عرفان موجود تھے۔ ملاقات میں تحریک عدم اعتماد و ملکی سیاسی صورتحال پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔  
امر بالمعروف جلسہ 
جہاں ایک طرف سیاسی جماعتوں کے درمیان تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے رابطوں اور ملاقاتوں کا سلسلہ جاری ہے وہیں پاکستان تحریک انصاف نے ایوان کے باہر عوامی طاقت کے مظاہرے کا فیصلہ کیا۔

پاکستان کے اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم نے چار ماہ قبل لانگ مارچ کا اعلان کیا تھا (فوٹو اے ایف پی)

اس سلسلے میں ابتدائی طور پر ڈی چوک کا مقام طے کیا گیا، تاہم عدالتی فیصلے کی روشنی میں اس جلسے کا مقام پریڈ ایونیو طے پایا۔  
تحریک انصاف پورے زور شور سے اس جلسے کی تیاریوں میں مصروف ہے۔ اسلام آباد کی تمام شاہراہوں پر ہزاروں کے حساب سے بینرز آویزاں کیے گئے ہیں۔  
وزیراعظم اس جلسے میں عوام کے سامنے بڑا سرپرائز دینے کا اعلان کر چکے ہیں، تاہم ابھی تک کسی کو بھی معلوم نہیں ہو سکا کہ یہ بڑا اعلان کیا ہوسکتا ہے۔  
خیال رہے کہ وزیر اعظم گذشتہ دو ہفتے کے دوران متعدد عوامی جلسوں سے خطاب میں اپوزیشن رہنماؤں کو تنقید کا نشانہ بنا چکے ہیں۔ ان جلسوں میں ان کا ہدف نواز شریف، آصف زرداری، شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمان ہوتے ہیں۔ 
امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اتوار کے جلسے میں عمران خان کی جانب سے ووٹوں کی خرید و فروخت سے متعلق آڈیو ویڈیو ثبوت عوام کو دکھا سکتے ہیں۔  
مہنگائی مکاؤ لانگ مارچ  
پاکستان کے اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم نے چار ماہ قبل لانگ مارچ کا اعلان کیا تھا جس کا آغاز چند دن تاخیر کے ساتھ ملک بھر سے گزشتہ روز ہوا۔ سندھ اور بلوچستان سے قافلے گزشتہ روز روانہ ہوئے جن میں بڑی تعداد جمعیت علمائے اسلام ف کے کارکنان کی ہے، جبکہ کے پی کے سے جمیعت علمائے اسلام آباد کے قافلے آج روانہ ہوئے۔  
پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے تمام قافلوں کا استقبال موٹروے پر ہکلا انٹرچینج پر کیا جہاں سے وہ تمام کاررواں کی قیادت کرتے ہوئے آج رات اسلام آباد میں سری نگر ہائی وے سے متصل ایچ نائن گراونڈ میں پڑاؤ ڈالیں گے۔  

این او سی کے مطابق جمیعت علمائے اسلام کو ہفتے کی رات بارہ بجے تک جلسے کی اجازت ہے (فائل فوٹو اے ایف پی)

اسی لانگ مارچ کے سلسلے میں مسلم لیگ ن کے رہنماوں مریم نواز اور حمزہ شہباز کی قیادت میں مارچ کا آغاز سنیچر کی دوپہر لاہور سے ہوا جو آج رات گوجرانوالہ میں قیام کرے گا، جبکہ یہ کارواں 28 مارچ کی شام اسلام آباد پہنچے گا۔ 
سیاسی گرمی اور تصادم کا خطرہ 
سیاسی پارہ ہائی ہے، سیاسی رہنما ایک دوسرے کے خلاف کھل کر بیان بازی کر رہے ہیں اور سیاسی جماعتیں اپنے ہزاروں کارکنان کے ساتھ اسلام آباد میں جمع ہو رہی ہیں جس وجہ سے تصادم کا خطرہ ہے۔  
جس مقام پر پی ڈی ایم جماعتیں موجود ہوں گی وہیں سے اتوار کے روز پاکستان تحریک انصاف کے جلسے میں جانے والے قافلے بھی گزریں گے۔ اسلام آباد انتظامیہ کے این او سی کے مطابق جمیعت علمائے اسلام کو ہفتے کی رات 12 بجے تک جلسے کی اجازت ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے بھی سڑکوں کی بندش کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کا حکم دیا گیا ہے۔  
پی ڈی ایم کا موقف ہے کہ لانگ مارچ پہلے سے طے شدہ تھا اور اس حوالے سے انتظامیہ کو نہ صرف درخواست دی گئی تھی بلکہ قانون کے مطابق انتظامیہ کے فیصلے کو بھی قبول کیا ہے۔ ا
ردو نیوز سے گفتگو میں حافظ حمداللہ نے کہا کہ 28 کی رات تک تو جلسہ جاری رہے گا۔ اس کے بعد دھرنے کا فیصلہ کریں گے۔  
کسی بھی ناخوشگوار واقعہ سے نمٹنے کے لیے اسلام آباد کے ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کرتے ہوئے جڑواں شہروں میں پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی چھٹیاں منسوخ کر دی گئی ہیں۔  
اسی طرح جڑواں شہروں کے درمیان چلنے والی میٹرو بس سروس بھی غیر معینہ مدت کے لیے بند کر دی گئی ہے۔ 

شیئر: