ایک ماہ سے کابینہ کا اجلاس نہیں ہوا اور زیادہ توجہ جلسوں پر رہی ہے۔ (فوٹو: عمران خان فیس بک)
پاکستان میں وزیراعظم عمران خان کے خلاف قومی اسمبلی میں اپوزیشن کی جانب سے تحریک عدم اعتماد جمع کرائے جانے کے بعد سیاسی بے یقینی اور اضطراب برقرار ہے۔ اس میں زیادہ کردار حکومت کا ہے جس نے ہر ممکن کوشش کی ہے کہ تحریک پر ووٹنگ موخر ہوتی چلی جائے۔
پیر 28 فروری کو اجلاس ہے جس میں تحریک عدم اعتماد پیش ہوگی، اندازہ ہے کہ اس پر رائے شماری اس کے کچھ دن بعد ہو گی۔
اس دوران ایک ماہ سے کاروبار حکومت معطل ہے۔ کابینہ کا اجلاس بھی نہیں ہوا اور زیادہ توجہ جلسوں پر رہی۔ سرپرائز سے بھرپور آخری جلسہ بھی ہو گیا۔
اس میں ٹرمپ کارڈ تو کیا آتا البتہ سسپنس بھرے کچھ انکشافات کیے گئے جن کی تصدیق صرف وزیراعظم ہی کر سکتے ہیں۔ کیا اس سے تحریک عدم اعتماد میں کم ہوتے ہوئے نمبر واپس ہو جائیں گے، اس کی حکمت بھی وزیر اعظم ہی بہتر جانتے ہیں۔
اپوزیشن نے بھی نشستند، گفتند اور برخاستند کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ ساتھ ساتھ ہلکے پھلکے جلوس بھی جاری ہیں لیکن اصل بریک تھرو آنے کا انتظار ہے۔ ابھی تک صرف سندھ ہاؤس میں مقیم درجن بھر ایم این ایز کی صورت میں ہی سرپرائز آیا ہے وہ بھی ادھورا کہ معاملہ سپریم کورٹ میں فیصلے کے بعد ہی واضح ہو گا۔
اتحادیوں سے ملاقاتوں کے دور پر دور چل رہے ہیں مگر اونٹ کسی کروٹ بیٹھ نہیں رہا۔ سوال یہ ہے کہ اس اعصاب کی جنگ میں کس کا پلڑا بھاری ہے؟
اگر صرف تحریک عدم اعتماد کو دیکھا جائے تو تینوں اتحادی بشمول ق لیگ، ایم کیو ایم اور بے اے پی حکومت سے نالاں نظر آتے ہیں۔
وہ کھل کر یہ اظہار کرتے ہیں کہ گذشتہ تین سال میں ان کو وہ وقعت نہیں ملی جو ملنی چاہیے تھے۔ تمام باڈی لینگویج بھی اپوزیشن کی طرف جھکاؤ ظاہر کرتی ہے۔ اس کے باوجود انہوں نے ابھی تک کھل کر فیصلہ نہیں کیا۔
ان پر نا اہلئ کی تلوار بھی نہیں کہ وہ ووٹ کے دن کا انتظار کرلیں۔ اس کے باوجود ان کے فیصلے میں اگر کوئی تاخیر ہے پھر اس کا باعث تاخیر بھی ضرور ہے۔ ورنہ 19 بیس ارکان کے اعلان کے بعد اپوزیشن کا نمبر گیم کا مسئلہ حل ہو جائے گا۔ اب ظاہر ہے کہ فیصلے کی گھڑی ہر دو صورتوں میں قریب ہے۔
وزیراعظم عمران خان کی طرف سے بھی بیانیہ تیزی سے تبدیل ہوا ہے۔ حکومت کہیں نہیں جا رہی ہے، سے لے کر مجھے اقتدار سے باہر ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا، تک کا سفر کچھ دنوں میں ہی طے ہو گیا۔
تحریک عدم اعتماد سے نمٹنے کے لیے وزیراعظم بہرحال چو مُکھی لڑ رہے ہیں۔ اتحادیوں سے ملاقاتیں، عدالت میں دلائل، عوامی جلسے اور آخر میں بین الاقوامی عناصر کے بارے میں انکشافات۔ سوال یہ ہے کہ ان میں سے کس محاذ سے ان کو عدم اعتماد میں کامیابی ملے گی؟
عوامی جلسوں کے سلسلے میں تو شاید اب ٹھہراؤ آ جائے۔ اسلام آباد کا جلسہ اگر بقول حکومتی دعوؤں متاثر کن تھا تو بھی پی ٹی آئی ایسے کئی جلسے کر چکی ہے۔ دوسری طرف اتحادیوں سے مذاکرات کی صورتحال سامنے ہے، عدالتی فیصلہ اتحادیوں کے بجائے اپنے اراکین پر ہی لاگو ہو گا اور بین الااقوامی سازش کا ذکر کر کے وزیر اعظم نے اپنے آپ کو بھٹو سے ملایا ہے۔
بھٹو نے دو دفعہ بیرونی عناصر پر سیاسی پوزیشن لی۔ پہلی دفعہ کابینہ سے استعفی دیتے وقت اور دوسری دفعہ اپنے اقتدار کے خاتمے کے وقت۔ پہلے موقع پر بھٹو اور دوسری دفعہ ان کی پارٹی طویل عرصے تک اقتدار سے باہر رہنے کے بعد واپس آئے۔
کیا وزیراعظم اس کے لیے تیار ہیں؟ کیا ان کی حالیہ تقریر اور بیانیہ حال سے زیادہ مستقبل کا سوچ کر تشکیل دیا جا رہا ہے؟
وزیراعظم کی طرف سے تو کوئی خاص سرپرائز نہ آ سکا مگر لگتا ہے کہ ان کے اپنے لیے سرپرائز اب آخری مراحل میں ہے۔ جلد الیکشن کا ذکر تو خود ان کی پارٹی قیادت کی طرف سے بھی ہو چکا ہے۔ باقی اشارے بھی واضح ہوتے جا رہے ہیں۔ اس لیے اگلے کچھ دنوں میں آنے والے سرپرائز کے بارے میں شکوک بھی یقین میں بدلتے جا رہے ہیں۔