پاکستان کی سپریم کورٹ میں آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لیے دائر صدارتی ریفرنس کی سماعت کے دوران مسلم لیگ ن کے وکیل مخدوم علی خان نے موقف اپنایا ہے کہ ’ضروری نہیں کہ ہر دفعہ پارٹی پالیسی سے انحراف ضمیر فروشی ہو۔‘
بدھ کو چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بنچ نے صدارتی ریفرنس پر سماعت کی۔
مسلم لیگ ن کے وکیل ن لیگ مخدوم علی خان نے صدارتی ریفرنس واپس بھیجنے کا موقف اپنایا اور کہا کہ صدر پورے وفاق کا نمائندہ ہوتا ہے۔ وہ کسی جماعت کو فائدہ پہنچانے کے لیے ریفرنس عدالت کو نہیں بھجوا سکتا۔
مزید پڑھیں
-
سپریم کورٹ کا کمرہ نمبر ایک پھر سے سیاسی قیادت کا مرکز نگاہNode ID: 654721
-
سیاسی بیانات سے عدالت پر اثرانداز ہونے کی کوشش نہ کریں: چیف جسٹسNode ID: 656636
انہوں نے کہا کہ ’صدر نے ریفرنس کے پیرا 19 میں سینیٹ انتخابات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس وقت ارکان نے ووٹ بیچے لیکن حکومتی جماعت نے ان کے خاف کوئی کارروائی نہیں کی۔‘
اس پر جسٹس اعجاز الاحسن نےکہا کہ ’پیسوں کا لین دین ثابت کرنا لازمی ہوتا ہے۔ آرٹیکل 63 اے میں کسی ثبوت کی ضرورت نہیں ہوتی۔‘
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’سینیٹ الیکشن پر آرٹیکل 63 اے کا اطلاق نہیں ہوتا۔‘
جس پر مخدوم علی خان نے کہا کہ ’اگر ووٹوں کی خریدو فروخت کا ذکر آرٹیکل 63 اے میں نہیں تو اس کا مطلب ہے کہ آئین آرٹیکل 63 اے کے ذریعے اظہار رائے کا موقع دیتا ہے اور اس کی قیمت بھی ادا کرنا ہوگی کہ جو رکن بھی ضمیر کی آواز پر اپنی پارٹی کے خلاف ووٹ دے گا اس کی سیٹ بھی خالی ہوگی۔ جس کا طریقہ کار بھی وضع کیا گیا ہے۔ اس کی سزا تاحیات نااہلی نہیں ہو سکتی۔‘
’اگر حکومتی ارکان ہسپتالوں پر لگنے والے 17 فیصد جی ایس ٹی کی مخالفت کریں اور کہیں کہ اس سے غریب کے لیے علاج مہنگا ہوگا اور منی بل میں مخالفت کریں تو آپ اس ضمیر فروشی نہیں کہہ سکتے۔‘
مسلم لیگ ن کے وکیل مخدوم علی خان نے جب اپنے دلائل کا آغاز کیا تو جسٹس جمال خان مندوخیل نے سوال اٹھائے کہ کیا صدر ہم سے اسمبلی کی کارروائی سے متعلق رائے طلب کر سکتے ہیں؟ کیا ریفرنس پر رائے کا اسمبلی کارروائی پر لازمی اطلاق ہوگا؟ کیا ریفرنس اسمبلی اور صدر کی ایڈوائس پر جمع کرایا گیا؟
