پاکستان میں اتوار کو رمضان کا پہلا دن تھا لیکن چھٹی کے باوجود وفاقی دارالحکومت میں صبح سے چہل پہل تھی کیونکہ آج وزیراعظم عمران خان اور ان کی حکومت کے مقدر کا فیصلہ ہونا تھا۔
حزب اختلاف کی جماعتوں کی جانب سے وزیراعظم عمران خان کے خلاف قومی اسمبلی میں جمع کرائی جانے والی تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ اور اس کے فیصلے کا پوری قوم کو انتظار تھا۔
حزب اختلاف کی جماعتوں کو وزیراعظم کو ہٹانے کے لیے کم سے کم 172 ووٹوں کی ضرورت تھی اور اسمبلی میں بیٹھے ان کے اراکین کی تعداد 176 کے قریب تھی۔
تقریباً 12 بجے جب اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا تو سب کو لگ رہا تھا کہ آج وزیراعظم عمران خان کی وزارت اعظمیٰ کا آخری دن ہے۔ لیکن آگے جو ہوا وہ کسی کے لیے سرپرائز سے کم نہ تھا۔
مزید پڑھیں
-
تحریک عدم اعتماد، آئین کا آرٹیکل 5 کیا کہتا ہے؟Node ID: 658336
-
ڈپٹی سپیکر کا سرپرائز: تحریک عدم اعتماد کا ڈراپ سینNode ID: 658341
-
پارلیمان سے سپریم کورٹ تک، صبح سے اب تک کیا کیا ہوا؟Node ID: 658376
وزیر اطلاعات فواد چوہدری، جنہیں دو روز قبل وزارت قانون کا اضافی قلمدان کا دیا گیا تھا، نے اپنی نشست پر کھڑے ہوئے اور آرٹیکل 5 کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ حزب اختلاف کی جماعتوں کی جانب سے پیش کی گئی تحریک عدم اعتماد بیرونی سازش کا حصہ ہے۔
ان کی تقریر کے بعد ڈپٹی سپیکر نے کہا کہ وہ وزیر قانون و اطلاعات کی بات سے متفق ہیں اور انہوں نے رولنگ دی کہ تحریک عدم اعتماد غیرآئینی ہے اور مسترد کی جاتی ہے۔
اس کے چند ہی منٹوں بعد وزیراعظم عمران خان پاکستان کے سرکاری ٹی وی پر نمودار ہوئے اور کہا کہ انہوں نے صدر عارف علوی کو قومی اسمبلی تحلیل کرنے کی ایڈوائس بھیج دی ہے۔
ایڈوائس بھیجنے کے کچھ دیر بعد ہی صدر عارف علوی نے پاکستان کی قومی اسمبلی کو تحلیل کردیا۔ وزیر مملکت برائے فرخ حبیب کا کہنا ہے کہ نئے انتخابات 90 دن میں ہوں گے۔
ملک میں بڑھتی ہوئی بے چینی کو بھانپتے ہوئے پاکستان کی سپریم کورٹ نے نوٹس لیا اور چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا ’ہم موجودہ صورت حال سے کسی ریاستی ادارے کو کسی قسم کا فائدہ نہیں اٹھانے دیں گے۔‘
افطار سے تقریباً ایک گھنٹہ قبل عدالت نے وزیراعظم، صدر مملکت، پاکستان بار کونسل، سیاسی جماعتوں، سیکریٹری داخلہ اور سیکریٹری دفاع سمیت دیگر کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے کیس کی سماعت پیر تک ملتوی کردی۔
یہاں سب سے بڑا سوال یہ اٹھتا ہے کہ ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کی دی گئی رولنگ کی قانونی حیثیت کیا ہے؟ اگر ان کی اس رولنگ میں کوئی خامی سامنے آتی ہے تو اس کی بنیاد پر اسمبلیاں تحلیل کرنے کا اقدام کیا اپنی جگہ قائم رہے گا۔
ماہر قانون ریما عمر کے مطابق ڈپٹی سپیکر کی رولنگ ’غیر آئینی‘ ہے۔ انہوں نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا کہ ’عمران خان کے پاس کوئی اختیار نہیں کہ وہ صدر کو اسمبلیاں تحلیل کرنے مشورہ دیں۔‘
انہوں نے مزید لکھا کہ ’اسمبلیوں کو تحلیل کرنا ایک ایسے شخص کی ایڈوائس پر جس کے پاس کوئی اختیار نہیں، اس کی کوئی حیثیت نہیں۔‘
There are no ifs and buts:
The Speaker’s ruling is blatantly unconstitutional
Imran Khan has no authority to advise the President to dissolve the National Assembly
Dissolving the assembly on the advice of a person who has no authority to do so has no constitutional basis
— Reema Omer (@reema_omer) April 3, 2022
وکیل سالار خان نے وزیراعظم عمران خان کے اقدام پر کہا کہ ’بیرونی خطرات کی باتیں سب اپنی جگہ لیکن کسی غیر ملک نے آج ہمارے آئین کو پامال نہیں کیا۔‘
انہوں نے مزید لکھا کہ ’ہم اپنے لیے خود ہی کافی ہیں۔‘
For all the talk of foreign threats, a foreign country didn’t violate our Constitution today.
Hum apnay liye khud hi kaafi hein.
— Salaar Khan (@Brainmasalaar) April 3, 2022
وکیل مرزا معیز بیگ نے ایک ٹویٹ میں لکھا کہ ’آپ جس بھی پارٹی کو سپورٹ کریں لیکن آج آئینی بالادستی اور قانون کی عملداری کے لیے سیاہ ترین دن تھا۔‘
Support whichever party you want but today is a dark dark day for constitutional supremacy and the rule of law. When constitutional values crumble, all of us collectively become weaker. What a sad and ignominious end!
— Mirza Moiz Baig (@MoizBaig26) April 3, 2022
بیرسٹر محمد احمد پنسوٹا کے مطابق ’آئین کے آرٹیکل 69 کے تحت پارلیمنٹ کی کارروائی پر عدالت میں سوال نہیں اٹھایا جاسکتا۔‘ لیکن انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’دیکھتے ہیں اب سپریم کورٹ کیا کہتی ہے۔‘
Article 69 of the constitution mandates that no proceedings of the Parliament can be called into question by any court. Let’s see what SC says. pic.twitter.com/RVVZrXKQsz
— Pansota (@Pansota1) April 3, 2022
جبکہ وکیل اسد جمال کا کہنا ہے کہ ’ووٹوں کی گنتی سپیکر کے پاس موجود واحد آپشن ہوتا ہے تحریک عدم اعتماد پیش ہونے کے بعد۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’وہ (سپیکر) اپنے دائرہ اختیار سے باہر نکل گئے۔ بدنیتی ظاہر ہے۔‘
Vote count is the only option for speaker once no confidence resolution is moved. He went far beyond his jurisdiction. Malice is obvious.
The VoNC remains to be decided. Everything else incl dissolutions should also crumble. For Supreme Ct, it should be as simple as this. https://t.co/NcGO8RABky— Asad Jamal (@LegalPolitical) April 3, 2022