پاکستانی نوجوان ووٹر کا سیاسی مستقبل، ماریہ میمن کا کالم
پاکستانی نوجوان ووٹر کا سیاسی مستقبل، ماریہ میمن کا کالم
پیر 18 اپریل 2022 5:33
ماریہ میمن
سیاسی نظام میں نوجوانوں کو متحرک کرنے میں اہم ترین کردار عمران خان کا ہی ہے (فوٹو: اے ایف پی)
پی ٹی آئی کی حکومت کے خاتمے اور اس کے بعد پیدا ہونے والے جوش و خروش نے سیاسی میدان میں نئی ہلچل پیدا کر دی ہے۔ اس سیاسی ہلچل نے کئی سوال پیدا کیے ہیں، یعنی الیکشن کب ہوں گے، آگے الیکشن میں پی ٹی آئی کس طرح اترے گی، اور اگلے انتخابات میں اس کا کیا بیانیہ ہو گا؟
سیاست کے سوالات کی تہہ میں سب سے اہم سوال پی ٹی آئی کے سیاسی مستقبل کے بارے میں ہے۔ سیاسی مستقبل کا انحصار سیاسی اثاثے یا political capital پر ہوتا ہے۔
پیپلز پارٹی کا ایک سیاسی اثاثہ ہے جس کی بنیاد تاریخی ہے۔ اسی طرح ن لیگ کا اپنا ایک سیاسی اثاثہ ہے۔ پی ٹی آئی کا سب سے بڑا سیاسی اثاثہ اس کا نوجوان ووٹر ہے۔ یہ نوجوان ووٹر صرف پی ٹی آئی کا ہی نہیں ہمارے سیاسی نظام کا بھی مستقبل ہے۔
آج کے سیاسی نظام میں نوجوانوں کو سیاست میں متحرک کرنے میں اہم ترین کردار عمران خان کا ہی ہے۔ اکثر لوگ اس کو ان کے کرکٹ کیریئر سے جوڑتے ہیں، جبکہ اگر غور کریں تو پی ٹی آئی کا نوجوان ووٹر اور سپورٹر عمران خان کی ریٹائرمنٹ کے بعد ہی پیدا یا بڑا ہوا ہے۔
اگر یہ نوجوان اگر پی ٹی آئی کے ساتھ ہے تو اس کی وجہ عمران خان کی کامیاب حکمت عملی ہے۔ اس حکمت عملی کا آغاز شوکت خانم ہسپتال کی تعمیر کے ساتھ ہوا جب انہوں نے عمران ٹائیگر کا استعارہ متعارف کرایا۔ اس کے بعد یہی نوجوان ان کے ساتھ 1995 میں بھی آیا مگر خاطر خواہ نتائج نہ مل سکے۔
عمران خان کا سیاسی ستارہ عروج کی طرف دوبارہ جب 2011 میں عازم سفر ہوا تو اس سفر میں بھی کارواں نوجوانوں کا ہی تھا۔ یہ نوجوان 15سال پہلے والا نوجوان نہیں تھا بلکہ انٹرنیٹ کے عہد اور سمارٹ فون سے لیس تھا۔ اس پوری نوجوان نسل کو سیاست میں رول ملا اور اس رول کی وجہ سے ہماری سیاست میں ایک نئی جان پیدا ہوئی۔
دوسری جماعتوں کو بھی اس کے جواب میں کوشش کرنی پڑی اور سیاست کا رخ ایک شہری اور پڑھے لکھے طبقے طرف ہو گیا۔ مگر اس میں بھی پی ٹی آئی کا پلڑا بھاری ہی نظر آتا ہے۔
سوال یہ بھی ہے کہ پی ٹی آئی کے علاوہ دوسری پارٹیوں کو اس کوشش میں اتنی کامیابی کیوں حاصل نہیں ہو سکی؟
بلاول بھٹو زرداری 30 برس کے لگ بھگ ہونے کے باوجود نوجوانوں کے ساتھ اس طرح منسلک نہیں ہو سکے جس طرح 70 برس کے عمران خان نوجوانوں کو متاثر کرتے ہیں۔ اس فرق کی وجہ صرف عمران خان کا بطور سلیبریٹی ماضی یا بلاول کا موروثی سیاست نہیں بلکہ ان کا انداز سیاست ہے۔
اسی طرح ن لیگ کے نسبتاً کم عمر وزیر اعلیٰ حمزہ شہباز شریف نوجوانوں سے ربط رکھنے کے بجائے اپنے آپ کو روایتی سیاست دان کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ روایتی سیاست دان اس حقیقت کا ادراک کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں کہ نوجوانوں سے رابطے کے لیے ان کی مسائل اور ان کے خیالات کو سمجھنا ضروری ہے۔ اس کے لیے وہ زبان اور وہ میڈیم بھی اہم ہیں جہاں نوجوان سرگرم ہیں۔
پاکستان ان ملکوں میں شامل ہے جہاں نوجوانوں کا آبادی میں تناسب سب سے زیادہ ہے۔ ان نوجوانوں کا سیاست میں کردار ہماری جمہوریت اور نظام کے لیے بے حد ضروری ہے۔
یہ بھی خدشہ ہے کہ موجودہ سیاسی تنازعات نوجوانوں کو سیاست سے متنفر نہ کر دیں۔ تمام پارٹیوں کو چاہیے کہ اپنے اندر نوجوانوں کو آگے لائیں۔ کابینہ میں نوجوانوں خصوصاً خواتین کو موقع دینا چاہیے۔ اگر نوجوان سیاست سے مایوس ہو گئے تو خدشہ ہے اس کا جمہوریت اور سیاسی نظام کو ناقابل تلافی نقصان ہو گا۔