واضح رہے کہ پاکستان نے اگست 2019 میں انڈیا کی جانب سے کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے قانون سازی کے بعد تجارت معطل کرنے کا اعلان کیا تھا۔
اس فیصلے کے بعد اپریل 2021 میں اقتصادی رابطہ کمیٹی نے انڈیا سے کپاس اور چینی درآمد کرنے کی سمری وفاقی کابینہ کو ارسال کی تھی جسے سابق وزیراعظم عمران خان کی کابینہ نے مسترد کر دیا تھا۔
اس وقت کے وزیراعظم عمران خان نے کشمیر کی خصوصی حیثیت بحال نہ کرنے تک انڈیا کے ساتھ تجارت بحال نہ کرنے کا اعلان کیا تھا۔
اس کے علاوہ پاکستان کی وفاقی کابینہ نے انڈیا سے جان بچانے والی ادویات درآمد کرنے کے لیے ایک بار اجازت دی تھی۔
شہباز شریف کی کابینہ کی جانب سے انڈیا میں میں تجارتی افسر تعینات کرنے کی منظوری کے بعد ایک بار پھر یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا پاکستان اور انڈیا کے درمیان تجارت بحال ہونے جارہی ہے؟
انڈین میڈیا نے بھی اس خبر کو رپورٹ کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان نے انڈیا کے ساتھ تجارت کے حوالے سے اپنے موقف میں نرمی دکھائی ہے۔
وزارت تجارت کا موقف
وزارت تجارت کے حکام نے اس حوالے سے اردو نیوز کو بتایا کیا کہ ’اس وقت انڈیا کے ساتھ تجارت کرنے کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی، انڈیا میں تجارتی افسر کی تعیناتی معمول کی کارروائی ہے۔‘
حکام کے مطابق موجودہ تعیناتی کو انڈیا اور پاکستان کے درمیان تجارت بحال ہونے کے تناظر میں نہ دیکھا جائے۔ اس تعیناتی کا تجارت بحالی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔
حکام نے بتایا کہ انڈیا کے ساتھ تجارت بحال کرنے کا یکطرفہ فیصلہ نہیں کیا جاسکتا۔ تجارت بحالی کا فیصلہ تمام سٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورت کے بعد کیا جائے گا۔ تاحال اس حوالے سے کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔‘
پاکستان کی وزارت تجارت نے اس حوالے سے ایک وضاحتی بیان بھی جاری کیا ہے۔ بیان کے مطابق وفاقی کابینہ نے نئی دہلی میں تجارتی افسر تعینات کرنے کی منظوری گزشتہ حکومت میں بھیجی گئی سمری کے مطابق دی ہے۔
وضاحتی بیان میں کہا گیا ہے کہ ’نئی دہلی میں سرمایہ کاری اور تجارت کی منسٹری کا عہدہ دو دہائیوں سے موجود ہے اور اس عہدے پر تعیناتی کا انڈیا کے ساتھ تجارت بحال کرنے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔‘
اپنے بیان میں وزارت تجارت نے کہا کہ ’انڈیا سمیت 46 ممالک میں وزارت تجارت ٹریڈ مشنز کو دیکھتی ہے اور 15 ممالک میں موجودہ تعیناتیوں کی سمری گزشتہ حکومت نے یکم اپریل کو وزیراعظم آفس کو بھجوائی تھی۔‘