سعودی عرب میں غذائی اشیا کا ضیاع، اسباب کیا ہیں؟
کھانے کے ضیاع کا دائرہ ریستورانوں تک محدود نہیں ہے۔ (فوٹو: روئٹرز)
مملکت میں سعودی فوڈ بینک کے ایگزیکٹیو چیئرمین فیصل الشوشان نے کہا ہے کہ سستی اشیا کی فروخت اور ڈیری و فوڈ کمپنیوں کی جانب سے پیداوار کم کرنے سے انکار غذائی اشیا کے ضیاع کا سبب ہے۔
الاخباریہ چینل کے معروف پروگرام ’120‘ میں گفتگو کرتے ہوئے فیصل الشوشان نے کہا کہ ’سستے داموں کھانے پینے کی اشیا فروخت کرنے کا اثر مارکیٹ میں بدنظمی کی صورت میں برآمد ہو رہا ہے۔ بعض تاجر خسارے سے بچنے کے لیے سامان سستے داموں فروخت کرتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ کھانے پینے کی اشیا کے ضیاع کے ذمے دار وہ کمپنیاں بھی ہیں جو ضرورت سے زیادہ سامان تیار کررہی ہیں۔
’اگرآپ ہر روز ایک ہزار کارٹن کے برابر سامان تیار کر رہے ہوں اورصرف دو سو کارٹن فروخت ہورہے ہوں تو ایسی صورت میں باقی 800 کارٹن تلف کرنے پڑیں گے۔‘
فیصل الشوشان نے کہا کہ کھانے کے ضیاع کا دائرہ ریستورانوں، ہوٹلوں اور شادی گھروں تک محدود نہیں ہے۔ غذائی اشیا غلط طریقے سے ذخیرہ کرنے سے بھی ضائع ہورہی ہیں۔ بہت ساری اشیا مارکیٹوں میں آتی ہیں اور فروخت نہیں ہوتیں۔ بیکری کی مصنوعات کا بھی بہت زیادہ ضائع ہو رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’کھانے پینے کی اشیا فروخت کرنے والے بڑے بازار اور سپر مارکیٹیں کھانے کے ضیاع کی ذمے دار ہیں۔ بعض سپر مارکیٹس میں زائد المیعاد کھانے پینے کی اشیا ذخیرہ ہوتی ہیں جسے انہیں تلف کرنا پڑتا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ اس بحران کا ایک حل یہ ہے کہ کھانے پینے کی اشیا فروخت کرنے والے مراکز اور مارکیٹس کو سپلائی اس وقت نہ پہنچائی جائے جب تک کہ یہ اطمینان نہ ہو جائے کہ ان اشیا کے استعمال کی مدت میں چار ماہ باقی ہیں۔
فیصل الشوشان نے مزید کہا کہ ڈیری مصنوعات کے استعمال کی میعاد کم ہوتی ہے اگر یہ فرض کیا جائے کہ یومیہ پیداوار میں سے 30 فیصد واپس ہوجاتی ہے تو ڈیری فارمز کے مالکان کو اس بات کا پابند بنایا جائے کہ وہ پیداوار کم کریں تاہم بعض کمپنیاں یہ تجویز ماننے پر آمادہ نہیں ہیں۔