Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

لانگ مارچ سے قبل کریک ڈاؤن، لاہور میں فائرنگ سے پولیس اہلکار ہلاک

نجی ٹی وی چینلز پر نشر کی گئی فوٹیج میں پولیس کو پی ٹی آئی کے چند ورکرز کو حراست میں لیتے دکھایا گیا ہے۔ فوٹو: سکرین گریب
حکومت مخالف لانگ مارچ سے قبل پاکستان کے مختلف شہروں میں تحریک انصاف کے رہنماؤں نے گھروں پر پولیس کے چھاپوں کی مذمت کی ہے جبکہ تحریک انصاف کے ذرائع سے میڈیا کو بھیجی گئی تفصیلات میں لاہور میں 73 کارکنوں کی گرفتاری کا دعویٰ کیا گیا ہے۔
ادھر پنجاب کے وزیراعلیٰ حمزہ شہباز نے منگل کو رات گئے کریک ڈاؤن کے دوران فائرنگ سے لاہور میں پولیس اہلکار کی ہلاکت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے لواحقین سے تعزیت کی ہے۔
وزیراعلیٰ نے آئی جی سے واقعہ کی رپورٹ طلب کرتے ہوئے قانون ہاتھ میں لینے والوں کے خلاف بلاامتیاز قانونی کارروائی کی ہدایت کی۔
لاہور، سیالکوٹ اور کراچی سے تحریک انصاف کے رہنماؤں نے اپنے گھروں پر پولیس کے چھاپوں کے حوالے سے بیانات جاری کیے اور کہا کہ وہ گرفتاری سے بچ گئے ہیں۔
‏اسلام آباد پولیس نے پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی ڈپٹی سیکریٹری اطلاعات عامر مسعود مغل کے گھر پر چھاپہ مار کر ان کو گرفتار کر لیا۔
سابق وفاقی وزیر حماد اظہر اور سیالکوٹ سے پی ٹی آئی کے رہنما عثمان ڈار نے گھروں پر پولیس کے چھاپوں کی مذمت کی اور کہا کہ وہ ڈرنے والے نہیں۔
سندھ اسمبلی کے رکن شاہنواز جدون کے گھر پر پولیس چھاپے کی ان کے بھائی نے تصدیق کی تاہم کہا کہ وہ گھر پر نہیں تھے۔ 
نجی ٹی وی چینلز پر نشر کی گئی فوٹیج میں پولیس کو پی ٹی آئی کے چند ورکرز کو حراست میں لیتے دکھایا گیا ہے۔
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے ایک بیان میں پولیس چھاپوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ’ان کی حکومت نے ن لیگ، پیپلز پارٹی اور جے یو آئی کے مارچ روکے نہ چھاپے مارے گئے۔‘
اس بیان پر پیپلز پارٹی کے علی موسیٰ گیلانی نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’ان کو بھائی سمیت ملتان جلسے سے قبل تحریک انصاف کی حکومت نے گرفتار کیا تھا۔‘

تاحال پولیس کی جانب سے تحریک انصاف کے کسی رہنما کی گرفتاری کی تصدیق نہیں کی گئی۔ فوٹو: سکرین گریب

تحریک انصاف کے سینیئر نائب صدر فواد چوہدری نے چھاپوں ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ حماد اظہر کے گھر پر چھاپہ مار کر چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کیا گیا۔
فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ گرفتاری کے لیے ایک طریقہ کار موجود ہے لیکن اس پر عمل نہیں کیا جا رہا۔
’پولیس افسران شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بن رہے ہیں۔ جو پولیس افسران سیاسی کردار ادا کریں گے ان کو نتائج بھگتنا ہوں گے۔‘
انہوں نے کہا کہ فیصل آباد، لاہور، ملتان، سیالکوٹ اور جہلم سمیت دیگر شہروں میں کارکنوں اور لیڈرشپ پر چھاپوں کی اطلاعات ہیں۔ پُرامن احتجاج ہمارا حق ہے، سیاسی کارکنوں کو گھروں میں داخل ہو کر گرفتار کیا جا رہا ہے۔

’فائرنگ ثبوت ہے کہ یہ پرامن مارچ چاہتے ہی نہیں تھے‘

دوسری جانب وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’بے گناہ پولیس اہلکار کمال احمد کے سینے میں لگی گولی ثبوت ہے کہ عمران خان دہشت گرد ہیں۔‘
’کمال احمد کے قاتل عمران خان، شیخ رشید اور ان کے حواری ہیں۔ خونی مارچ ہو گا کے اعلانات کرنے والوں سے حساب لیں گے۔‘
وفاقی وزیر داخلہ کا کہنا ہے کہ ’پولیس پر فائرنگ سے یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ یہ سیاسی سرگرمی نہیں۔ فائرنگ ثبوت ہے کہ یہ پرامن مارچ چاہتے ہی نہیں تھے۔‘

شیئر: