مقدمہ بے بنیاد ہے، جو کہا ذہنی دباؤ کے تحت تھا: ایمان مزاری
مقدمہ بے بنیاد ہے، جو کہا ذہنی دباؤ کے تحت تھا: ایمان مزاری
بدھ 1 جون 2022 13:29
زبیر علی خان -اردو نیوز، اسلام آباد
ایمان مزاری کی مقدمہ ختم کرنے کے لیے دائر درخواست پر ہائیکورٹ نے فوج کے شعبے جیگ برانچ کو نوٹس جاری کیے۔ فائل فوٹو: ایمان مزاری فیس بک
سابق وفاقی وزیر شیریں مزاری کی بیٹی اور پاکستان میں انسانی حقوق کی سرگرم کارکن ایمان مزاری نے اداروں کے خلاف ’ہرزہ سرائی‘ کیس میں تحریری جواب جمع کرا دیا ہے۔
تحریری جواب میں کہا گیا ہے کہ ’ایف آئی آر میں درج الزامات بدنیتی پر مبنی ہیں۔ میرے خلاف درج مقدمہ بے بنیاد اور قانونی کارروائی کا غلط استعمال ہے۔‘
انہوں نے عدالت کو تحریری طور پر بتایا کہ وہ تفتیشی افسر کے سمن کرنے پر 30 مئی کو شامل تفتیش ہوئیں۔ ’مجھے دو ویڈیوز دکھائی گئیں جن میں سے ایک اسلام آباد ہائی کورٹ کے باہر جبکہ ایک اندر کی تھی۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’21 مئی کو میری والدہ شیریں مزاری کو غیر قانونی طور پر حراست میں لیا گیا اور اس غیر قانونی اقدام سے قبل میری والدہ نے مجھے بتایا تھا کہ ان کا آرمی چیف کے ساتھ دو مرتبہ تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا، جس کی تفصیل کا مجھے علم نہیں۔ اس کے نتیجے میں کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آ سکتا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’21 مئی کو میری والدہ کو غیر قانونی طور پر حراست میں لیا گیا اور میں مقامی پولیس سٹیشن پہنچی۔ تاہم مجھے متعدد بار پولیس حکام کی جانب سے بتایا گیا کہ میری والدہ ان کی حراست میں نہیں اور انہیں ان کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہے۔ پولیس کے ان بیانات اور میری والدہ کے بتائے گئے خدشے کے بعد ان کی غیر قانونی گرفتاری کے روز میں نے جس شک کا اظہار کیا اسے کسی جرم میں معاونت کی کوشش نہیں کہا جا سکتا۔‘
ایمان مزاری نے تحریری جواب میں مزید کہا ’میں نے پاکستان کی فوج کے سپاہیوں کو سینیئر لیڈرشپ کے خلاف بغاوت پر اکسایا نہ کوئی معاونت کی ہے۔ مجھ پر یہ الزام مضحکہ خیز ہے کہ اپنی ماں کی گمشدگی کے وقت میرا ارادہ بغاوت کرانا تھا۔ یہ میرا حق تھا کہ میں معلومات کی بنیاد پر شک کا اظہار کروں۔‘
انہوں نے کہا کہ ‘دوران تفتیش مجھ سے پوچھا گیا کہ کیا شدت پسندوں کے ساتھ بھی کوئی رابطے ہیں؟ میں نے شدت پسندوں کے ساتھ کسی قسم کے رابطوں کی سختی سے تردید کی ہے۔ میں پرامن، غیر مسلح شہری ہوں اور کسی بھی شکایت کے ازالے کے لیے ہمیشہ قانونی رستہ اختیار کیا ہے۔‘
اس سے قبل بدھ کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں اداروں کے خلاف ہرزہ سرائی کے کے مقدمے کو ختم کرنے کی درخواست پر سماعت کے دوران ایمان مزاری کی وکیل نے عدالت کو بتایا تھا کہ ’جو کچھ بھی کہا گیا وہ جان بوجھ کر نہیں تھا۔ درخواست گزار کی والدہ کو اٹھایا گیا اور وہ حالات ایسے تھے جس میں جو کہا گیا وہ ذہنی دباؤ کی وجہ سے تھا۔‘
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ درخواست میں تو لکھا گیا ’جو پاکستان آرمی کے خلاف کہا گیا وہ جان بوجھ کر نہیں کہا گیا۔ اگر آپ کا یہ بیان ہے تو ادارے کو تو شکایت واپس لینا چاہیے۔‘
اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی حکومت، آئی جی اسلام آباد، پاکستان فوج کے جیگ ڈیپارٹمنٹ اور دیگر فریقوں کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے سماعت 9 جون تک ملتوی کر دی۔